سنن النسائي - حدیث 911

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ إِيجَابُ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي الصَّلَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 911

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنی واجب (فرض) ہے حضر ت عبادہ بن صامت رضی اللہ سے مروی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جس نے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی۔‘‘
تشریح : حدیث کے الفاظ عام ہیں جس میں اکیلا، امام اور مقتدی سب شامل ہیں۔ اسی طرح لفظ صلاۃ بھی عام ہے۔ فرض نماز ہو یا نفل، انفرادی ہو یا اجتماعی، سری ہو یا جہری۔ اور یہی مفہوم صحیح ہے۔ احناف ا ور مالکیوں کے نزدیک مقتدی اس سے مستثنیٰ ہے۔ مالکیہ کے نزدیک صرف جہری نماز میں استثنا ہے۔ مالکیہ کی دلیل قرآن کی آیت ہے: (واذا قری القران فاستمعوا الہ وانصتوا) (الاعرف۷:۲۰۴) ’’جب قرآن مجید پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو۔‘‘ انصات کی بحث حدیث نمبر ۹۱۰ میں گزر چکی ہے۔ احناف کا استدلال اس دوسری روایت سے بھی ہے: [من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ] (سنن ابن ماجہ، اقامۃ الصلوات، حدیث:۸۵۰) مگر یہ حدیث ائمہ حدیث کے نزدیک بالاتفاق منقطع ہے۔ سوائے ضعیف راویوں کے کسی نے اسے متصل سند کے ساتھ بیان نہیں کیا ہے، لہٰذا یہ روایت غیرمعتبر ہے، نیز یہاں قراء ت سے مراد جہر ہوسکتا ہے، یعنی امام کے ہوتے ہوئے جہراً نہ پڑھا جائے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ جس آدمی کا امام ہو، یعنی وہ امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو اسے اپنی قراءت کرنی چاہیے کیونکہ امام کی قراءت صرف اپنے لیے ہوتی ہے۔ ان دو تاویلوں سے یہ روایت دوسری صحیح روایات کے موافق ہوجائے گی، ورنہ محدثین کا فیصلہ اوپر گزرچکا ہے۔ یا اس روایت کو فاتحہ سے مابعد قراءت پر محمول کیا جائے، یعنی فاتحہ کے بعد مقتدی نہ پڑھے۔ اس طرح تمام روایات پر عمل ممکن ہوگا۔ ضعیف روایات کی بنا پر صحیح روایات کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ویسے بھی مقتدی اپنی نماز کے تمام ارکان خود ادا کرتا ہے، امام اس کی طرف سے ایک رکن تو ایک طرف رہا، کوئی مستحب بھی ادا نہیں کرتا حتی کہ دعائے استفتاح، تسبیحات، رکوع و سجود، تمام اذکار اوراد اور تکبیرات تک خود پڑھتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ قراءت جو نماز کا رکن اعظم ہے، مقتدی چھوڑ دے کہ امام کی قراءت مجھے کفایت کر جائے گی۔ اگر قراءت امام خصوصاً سری نمازوں میں، مقتدی کی طرف سے کافی ہے تو باقی چیزیں کیوں کافی نہیں؟ یہ بات انتہائی قابل غور ہے، نیز احناف کے نزدیک قراءت نماز کا لازمی رکن ہے تو رکن کے بغیر نماز کیسے ادا ہوجائے گی؟ جب کہ ہر ایک کی نماز کی قبولیت الگ الگ ہے۔ ہوسکتا ہے امام کی نماز قبول نہ ہو۔ (مثلا: وہ سودخور ہے) مگر مقتدی کی ہوجائے۔ اس کے برعکس قرآن مجید میں ہے: (وان لیس للانسان الا ماسعی) (النجم۵۳:۳۹) ’’انسان کے کام وہی عمل آئے گا جو اس نے خود کیا۔‘‘ ایسے واضح دلائل کے مقابلے میں چند ایک ضعیف اور انتہائی کمزور روایات کو پیش کرکے امام کے پیچھے ہر قسم کی (سری اور جہری) نمازوں میں مقتدی کو سورۂ فاتحہ کی قراءت سے جبراً روک دینا یقیناً حیرت انگیزجسارت ہے۔ جس پر احباب کو غور کرنا چاہیے۔ [لاصلاۃ] میں ’’لا‘‘ جنس کی نفی کے لیے ہے، یعنی اس سے ذات کی نفی مراد ہے، صفات کی نفی مراد نہیں جیسا کہ بعض لوگ اسے لائے نفی کمال، کہتے ہیں کیونکہ صفات کی نفی وہاں مراد ہوتی ہے جہاں ذات کی نفی مراد لینے سے کوئی قرینہ مانع ہو اور اس حدیث میں اس ’’لا‘‘ کو لائے نفی جنس بنانے میں کوئی قرینہ مانع نہیں بلکہ اس کی تائید اسماعیلی کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ [لاتجزی صلاۃ لا یقرا فیھا بفاتحۃ الکتاب] ’’جس نماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ کفایت نہیں کرتی۔‘‘ یعنی وہ قبول نہیں ہوتی جیسا کہ دوسری روایت میں ہے: [لا تقبل صلاۃ لا یقرا فیھا بام القران] ’’جس نماز میں میں ام القرآن، یعنی سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ (عنداللہ) مقبول نہیں۔‘‘ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباری:۲؍۳۱۳۔۳۱۵، تحت حدیث:۷۵۶، وعمدۃ القاری: ۶؍۱۵۔۱۷، تحت حدیث:۷۵۶) حدیث کے الفاظ عام ہیں جس میں اکیلا، امام اور مقتدی سب شامل ہیں۔ اسی طرح لفظ صلاۃ بھی عام ہے۔ فرض نماز ہو یا نفل، انفرادی ہو یا اجتماعی، سری ہو یا جہری۔ اور یہی مفہوم صحیح ہے۔ احناف ا ور مالکیوں کے نزدیک مقتدی اس سے مستثنیٰ ہے۔ مالکیہ کے نزدیک صرف جہری نماز میں استثنا ہے۔ مالکیہ کی دلیل قرآن کی آیت ہے: (واذا قری القران فاستمعوا الہ وانصتوا) (الاعرف۷:۲۰۴) ’’جب قرآن مجید پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو۔‘‘ انصات کی بحث حدیث نمبر ۹۱۰ میں گزر چکی ہے۔ احناف کا استدلال اس دوسری روایت سے بھی ہے: [من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ] (سنن ابن ماجہ، اقامۃ الصلوات، حدیث:۸۵۰) مگر یہ حدیث ائمہ حدیث کے نزدیک بالاتفاق منقطع ہے۔ سوائے ضعیف راویوں کے کسی نے اسے متصل سند کے ساتھ بیان نہیں کیا ہے، لہٰذا یہ روایت غیرمعتبر ہے، نیز یہاں قراء ت سے مراد جہر ہوسکتا ہے، یعنی امام کے ہوتے ہوئے جہراً نہ پڑھا جائے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ جس آدمی کا امام ہو، یعنی وہ امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو اسے اپنی قراءت کرنی چاہیے کیونکہ امام کی قراءت صرف اپنے لیے ہوتی ہے۔ ان دو تاویلوں سے یہ روایت دوسری صحیح روایات کے موافق ہوجائے گی، ورنہ محدثین کا فیصلہ اوپر گزرچکا ہے۔ یا اس روایت کو فاتحہ سے مابعد قراءت پر محمول کیا جائے، یعنی فاتحہ کے بعد مقتدی نہ پڑھے۔ اس طرح تمام روایات پر عمل ممکن ہوگا۔ ضعیف روایات کی بنا پر صحیح روایات کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ویسے بھی مقتدی اپنی نماز کے تمام ارکان خود ادا کرتا ہے، امام اس کی طرف سے ایک رکن تو ایک طرف رہا، کوئی مستحب بھی ادا نہیں کرتا حتی کہ دعائے استفتاح، تسبیحات، رکوع و سجود، تمام اذکار اوراد اور تکبیرات تک خود پڑھتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ قراءت جو نماز کا رکن اعظم ہے، مقتدی چھوڑ دے کہ امام کی قراءت مجھے کفایت کر جائے گی۔ اگر قراءت امام خصوصاً سری نمازوں میں، مقتدی کی طرف سے کافی ہے تو باقی چیزیں کیوں کافی نہیں؟ یہ بات انتہائی قابل غور ہے، نیز احناف کے نزدیک قراءت نماز کا لازمی رکن ہے تو رکن کے بغیر نماز کیسے ادا ہوجائے گی؟ جب کہ ہر ایک کی نماز کی قبولیت الگ الگ ہے۔ ہوسکتا ہے امام کی نماز قبول نہ ہو۔ (مثلا: وہ سودخور ہے) مگر مقتدی کی ہوجائے۔ اس کے برعکس قرآن مجید میں ہے: (وان لیس للانسان الا ماسعی) (النجم۵۳:۳۹) ’’انسان کے کام وہی عمل آئے گا جو اس نے خود کیا۔‘‘ ایسے واضح دلائل کے مقابلے میں چند ایک ضعیف اور انتہائی کمزور روایات کو پیش کرکے امام کے پیچھے ہر قسم کی (سری اور جہری) نمازوں میں مقتدی کو سورۂ فاتحہ کی قراءت سے جبراً روک دینا یقیناً حیرت انگیزجسارت ہے۔ جس پر احباب کو غور کرنا چاہیے۔ [لاصلاۃ] میں ’’لا‘‘ جنس کی نفی کے لیے ہے، یعنی اس سے ذات کی نفی مراد ہے، صفات کی نفی مراد نہیں جیسا کہ بعض لوگ اسے لائے نفی کمال، کہتے ہیں کیونکہ صفات کی نفی وہاں مراد ہوتی ہے جہاں ذات کی نفی مراد لینے سے کوئی قرینہ مانع ہو اور اس حدیث میں اس ’’لا‘‘ کو لائے نفی جنس بنانے میں کوئی قرینہ مانع نہیں بلکہ اس کی تائید اسماعیلی کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ [لاتجزی صلاۃ لا یقرا فیھا بفاتحۃ الکتاب] ’’جس نماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ کفایت نہیں کرتی۔‘‘ یعنی وہ قبول نہیں ہوتی جیسا کہ دوسری روایت میں ہے: [لا تقبل صلاۃ لا یقرا فیھا بام القران] ’’جس نماز میں میں ام القرآن، یعنی سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ (عنداللہ) مقبول نہیں۔‘‘ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباری:۲؍۳۱۳۔۳۱۵، تحت حدیث:۷۵۶، وعمدۃ القاری: ۶؍۱۵۔۱۷، تحت حدیث:۷۵۶)