سنن النسائي - حدیث 910

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ تَرْكُ قِرَاءَةِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فِي فَاتِحَةِ الْكِتَابِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا السَّائِبِ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ هِيَ خِدَاجٌ هِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ إِنِّي أَحْيَانًا أَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ فَغَمَزَ ذِرَاعِي وَقَالَ اقْرَأْ بِهَا يَا فَارِسِيُّ فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْرَءُوا يَقُولُ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَمِدَنِي عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَجَّدَنِي عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ فَهَذِهِ الْآيَةُ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ يَقُولُ الْعَبْدُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فَهَؤُلَاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 910

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: سورۂ فاتحہ میں (بسم اللہ الرحمن الرحیم) نہ پڑھنا ابوسائب سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس آدمی نے کوئی نماز پڑھی جس میں اس نے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ ناقص ہے۔ ناقص ہے۔ ناقص ہے۔ مکمل نہیں۔‘‘ میں نے کہا: اے ابوہریرہ! میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں؟ تو انھوں نے میرا بازو دبایا اور فرمایا: اوفارسی! اسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’اللہ عزوجل فرماتا ہے: میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک حصہ میرے لیے ہے اور دوسرا میرے بندے کے لیے۔ اور میرے بندے کو ہر وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(فاتحہ) پڑھو۔ بندہ کہتا ہے: (الحمدللہ رب العالمین) ’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔‘‘ اللہ عزوجل فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی۔ بندہ کہتا ہے (الرحمن الرحیم) ’’جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔‘‘ اللہ عزوجل فرماتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا کی۔ بندہ کہتا ہے (مالک یوم الدین) ’’جو روزجزا کا مالک ہے۔‘‘ اللہ عزوجل فرماتا ہے: میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ بندہ کہتا ہے (ایاک نعبدو وایاک نستعین) ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘ اللہ عزوجل فرماتا ہے: یہ آیت میرےاور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے۔ اور میرے بندے کو وہ ملے گا جو اس نے مانگا ہے۔ بندہ کہتا ہے: (اھدنا الصراط المستقیم، صراط الذین انعمت علیہم غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین) ’’ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تونے انعام کیا، جن پر تیرا غضب نہیں ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔‘‘ اللہ عزوجل فرماتا ہے: یہ سب باتیں میرے بندے کے لیے ہیں اور میرے بندے کے لیے ہر وہ چیز ہے جو اس نے مانگی۔‘‘
تشریح : (۱)’’ناقص ہے، مکمل نہیں۔‘‘ اور نماز مکمل پڑھنی چاہیے۔ [خداج] کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا نقص ہے جس کی موجودگی میں نماز غیرمعتبر ہے کیونکہ یہ لفظ اس اونٹنی کے سلسلے میں بولا جاتا ہے جو وقت سے پہلے بچہ گرادے جس کی ابھی صورت نہ بنی ہو، یعنی ناقص الخلقت ہو۔ گویا مردہ جسے عرف عام کے لحاظ سے بچہ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ گویا اس نماز کی جس میں سورت فاتحہ نہ پڑھی جائے، اس لوتھڑے کی حیثیت ہے جو کسی بھی کام کا نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ سورت فاتحہ کا پڑھنا نماز کی صحت کے لیے لازمی ہے۔ یہ وہ نقص نہیں جو لنگڑے پن، اندھے پن یا کانے پن کی طرح ہو۔ اور کبھی اس کا اطلاق اس تام الخلقت بچے پر بھی ہوتا ہے جو قبل از وقت پیدا ہوگیا ہو۔ ایسا بچہ بھی زندگی کے قابل نہیں ہوتا جبکہ یہاں پہلے معنی مراد ہیں کیونکہ ’’غیرتمام‘‘ کی تصریح موجود ہے۔ (۲)’’اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔‘‘ یعنی آہستہ جو دوسروں کو سنائی نہ دے۔ اس سے مراد صرف تصور اور استحضار نہیں کیونکہ اسے پڑھنا نہیں کہتے اور یہاں پڑھنے کا لفظ صراحت سے ذکر ہے۔ (۳)’’نماز کو تقسیم کردیا ہے۔‘‘ حالانکہ نماز کو نہیں بلکہ صرف سورۂ فاتحہ کو تقسیم کیا ہے جیسا کہ صراحتاً ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ سورۂ فاتحہ کو نماز کہا گیا ہے اور یہ اہم ترین رکن ہونے کی دلیل ہے اور رکن کے بغیر نماز نہیں ہوسکتی۔ یہی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا استدلال ہے۔ ویسے اگلی حدیث میں صریح الفاظ آرہے ہیں: [لا صلاۃ لمن لم یقرا۔۔۔الخ] (۴)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسے منفرد اور مقتدی دونوں کے لیے ضروری قرار دیا ہے اور دلائل کی رو سے یہی مسلک برحق ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ جب قراءت ہورہی ہو تو مقتدی کو [انصات] ’’خاموشی‘‘ کا حکم ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آہستہ پڑھنا جو کسی کو سنائی نہ دیتا ہو، انصات کے منافی نہیں۔ جس آیت سے انصات کا حکم لیا گیا ہے، اس کےساتھ ہی ذکر ہے (واذکر ربک فی نفسک۔۔۔ الخ) (الاعراف۷:۲۰۵) خاموش تو رہو مگر دل میں ، بلند آواز کے بغیر رب کو یاد کرتے رہو۔ صبح ہو یا شام (یعنی سب نمازوں میں سری ہوں یا جہری) اور غافل بن کر نہ کھڑے رہو۔ ثابت ہوا کہ آہستہ پڑھنا خاموشی کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین موافق ہے، لہٰذا دونوں پر عمل ہوگا، خصوصاً اگر امام سورت فاتحہ کی ہر آیت پڑھ کر وقفہ کرے جس میں مقتدی وہ آیت پرھ لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر آیت کے بعد ٹھہرتے تھے۔ (سنن ابی داود، الحروف والقراء ات، حدیث:۴۰۰۱، ومسنداحمد: ۶ء۳۰۲) ویسے بھی وہ آیت سورۂ فاتحہ کے بارے میں نازل نہیں ہوئی جیسا کہ مفسرین نے وضاحت کی ہے بلکہ یہ آیت کفار کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھتے تو کفارِمکہ شور مچاتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور علامہ فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں، پیر کرم شاہ بھیروی نے ضیاء القرآن میں اور مولانا عبدالماجددریاآبادی نے بھی تفسیر ماجدی میں اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ اگر اس کے عموم کا لحاظ کرتے ہوئے، اسے نماز پر بھی محمول کریں، پھر بھی اس سے سورۂ فاتحہ کی قراءت کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اس کا وضح نصوص سے استثنا ثابت ہے۔ واللہ اعلم۔ (۵)’’مشترک ہے۔‘‘ کیونکہ عبادت اللہ تعالیٰ کی اور شفاعت اپنے لیے۔ (۶)امام صاحب نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ (بسم اللہ الرحمن الرحیم) سورۂ فاتحہ کا جز نہیں۔ اتنا استدلال تودرست ہوسکتا ہے کیونکہ اور بھی بعض لوگ اس موقف کے حامی ہیں، لیکن درست اور راجح بات یہی ہے کہ بسم للہ سورۂ فاتحہ کا جز ہے۔ البتہ دوسرا استدلال کہ سورۂ فاتحہ سے پہلے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) نہ پڑھی جائے، درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) پڑھی اور لکھوائی ہے۔ تمام مصاحف میں ہر سورت سے پہلے (سوائے سورت توبہ کے) لکھی ہوئی ہے، لہٰذا ہر سورت سے پہلے پڑھی جائے گی، خواہ تبرکاہی ہو۔ اسے نہ پڑھنا خلاف سنت اور مصحف کی خلاف ورزی ہے۔ مصحف (قرآن مجید) متواتر ہے جو شک و شبہ سے بالا ہے۔ ہاں! یہ بحث ہوسکتی ہے کہ آہستہ پڑھی جائے یا فاتحہ کی طرح اونچی آواز سے۔ احناف آہستہ اور شوافع جہر کے قائل ہیں۔ مالکیہ سرے سے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) پڑھنے کے قائل ہی نہیں، نہ سرًا نہ جہرًا، مگر یہ قول بلادلیل ہے۔ سروجہر کی بحث حدیث نمبر ۹۰۶ میں گزر چکی ہے۔ (۱)’’ناقص ہے، مکمل نہیں۔‘‘ اور نماز مکمل پڑھنی چاہیے۔ [خداج] کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا نقص ہے جس کی موجودگی میں نماز غیرمعتبر ہے کیونکہ یہ لفظ اس اونٹنی کے سلسلے میں بولا جاتا ہے جو وقت سے پہلے بچہ گرادے جس کی ابھی صورت نہ بنی ہو، یعنی ناقص الخلقت ہو۔ گویا مردہ جسے عرف عام کے لحاظ سے بچہ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ گویا اس نماز کی جس میں سورت فاتحہ نہ پڑھی جائے، اس لوتھڑے کی حیثیت ہے جو کسی بھی کام کا نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ سورت فاتحہ کا پڑھنا نماز کی صحت کے لیے لازمی ہے۔ یہ وہ نقص نہیں جو لنگڑے پن، اندھے پن یا کانے پن کی طرح ہو۔ اور کبھی اس کا اطلاق اس تام الخلقت بچے پر بھی ہوتا ہے جو قبل از وقت پیدا ہوگیا ہو۔ ایسا بچہ بھی زندگی کے قابل نہیں ہوتا جبکہ یہاں پہلے معنی مراد ہیں کیونکہ ’’غیرتمام‘‘ کی تصریح موجود ہے۔ (۲)’’اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔‘‘ یعنی آہستہ جو دوسروں کو سنائی نہ دے۔ اس سے مراد صرف تصور اور استحضار نہیں کیونکہ اسے پڑھنا نہیں کہتے اور یہاں پڑھنے کا لفظ صراحت سے ذکر ہے۔ (۳)’’نماز کو تقسیم کردیا ہے۔‘‘ حالانکہ نماز کو نہیں بلکہ صرف سورۂ فاتحہ کو تقسیم کیا ہے جیسا کہ صراحتاً ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ سورۂ فاتحہ کو نماز کہا گیا ہے اور یہ اہم ترین رکن ہونے کی دلیل ہے اور رکن کے بغیر نماز نہیں ہوسکتی۔ یہی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا استدلال ہے۔ ویسے اگلی حدیث میں صریح الفاظ آرہے ہیں: [لا صلاۃ لمن لم یقرا۔۔۔الخ] (۴)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسے منفرد اور مقتدی دونوں کے لیے ضروری قرار دیا ہے اور دلائل کی رو سے یہی مسلک برحق ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ جب قراءت ہورہی ہو تو مقتدی کو [انصات] ’’خاموشی‘‘ کا حکم ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آہستہ پڑھنا جو کسی کو سنائی نہ دیتا ہو، انصات کے منافی نہیں۔ جس آیت سے انصات کا حکم لیا گیا ہے، اس کےساتھ ہی ذکر ہے (واذکر ربک فی نفسک۔۔۔ الخ) (الاعراف۷:۲۰۵) خاموش تو رہو مگر دل میں ، بلند آواز کے بغیر رب کو یاد کرتے رہو۔ صبح ہو یا شام (یعنی سب نمازوں میں سری ہوں یا جہری) اور غافل بن کر نہ کھڑے رہو۔ ثابت ہوا کہ آہستہ پڑھنا خاموشی کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین موافق ہے، لہٰذا دونوں پر عمل ہوگا، خصوصاً اگر امام سورت فاتحہ کی ہر آیت پڑھ کر وقفہ کرے جس میں مقتدی وہ آیت پرھ لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر آیت کے بعد ٹھہرتے تھے۔ (سنن ابی داود، الحروف والقراء ات، حدیث:۴۰۰۱، ومسنداحمد: ۶ء۳۰۲) ویسے بھی وہ آیت سورۂ فاتحہ کے بارے میں نازل نہیں ہوئی جیسا کہ مفسرین نے وضاحت کی ہے بلکہ یہ آیت کفار کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھتے تو کفارِمکہ شور مچاتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور علامہ فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں، پیر کرم شاہ بھیروی نے ضیاء القرآن میں اور مولانا عبدالماجددریاآبادی نے بھی تفسیر ماجدی میں اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ اگر اس کے عموم کا لحاظ کرتے ہوئے، اسے نماز پر بھی محمول کریں، پھر بھی اس سے سورۂ فاتحہ کی قراءت کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اس کا وضح نصوص سے استثنا ثابت ہے۔ واللہ اعلم۔ (۵)’’مشترک ہے۔‘‘ کیونکہ عبادت اللہ تعالیٰ کی اور شفاعت اپنے لیے۔ (۶)امام صاحب نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ (بسم اللہ الرحمن الرحیم) سورۂ فاتحہ کا جز نہیں۔ اتنا استدلال تودرست ہوسکتا ہے کیونکہ اور بھی بعض لوگ اس موقف کے حامی ہیں، لیکن درست اور راجح بات یہی ہے کہ بسم للہ سورۂ فاتحہ کا جز ہے۔ البتہ دوسرا استدلال کہ سورۂ فاتحہ سے پہلے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) نہ پڑھی جائے، درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) پڑھی اور لکھوائی ہے۔ تمام مصاحف میں ہر سورت سے پہلے (سوائے سورت توبہ کے) لکھی ہوئی ہے، لہٰذا ہر سورت سے پہلے پڑھی جائے گی، خواہ تبرکاہی ہو۔ اسے نہ پڑھنا خلاف سنت اور مصحف کی خلاف ورزی ہے۔ مصحف (قرآن مجید) متواتر ہے جو شک و شبہ سے بالا ہے۔ ہاں! یہ بحث ہوسکتی ہے کہ آہستہ پڑھی جائے یا فاتحہ کی طرح اونچی آواز سے۔ احناف آہستہ اور شوافع جہر کے قائل ہیں۔ مالکیہ سرے سے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) پڑھنے کے قائل ہی نہیں، نہ سرًا نہ جہرًا، مگر یہ قول بلادلیل ہے۔ سروجہر کی بحث حدیث نمبر ۹۰۶ میں گزر چکی ہے۔