سنن النسائي - حدیث 91

صِفَةُ الْوُضُوءِ بِأَيِّ الْيَدَيْنِ يَسْتَنْثِرُ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ زَائِدَةَ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ دَعَا بِوَضُوءٍ فَتَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَنَثَرَ بِيَدِهِ الْيُسْرَى فَفَعَلَ هَذَا ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ هَذَا طُهُورُ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 91

کتاب: وضو کا طریقہ ناک کس ہاتھ سے جھاڑے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انھوں نے وضو کا پانی منگوایا، پھر اس سے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا اور اپنے بائیں ہاتھ سے جھاڑا۔ یہ کام تین دفعہ کیا، پھر فرمایا: یہ ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو۔
تشریح : ناک جھاڑنا غلاظت کی صفائی ہے، لہٰذا یہ بائیں ہاتھ ہی سے مناسب ہے، بخلاف منہ کی صفائی کہ وہ دائیں ہاتھ سے ہونی چاہیے کیونکہ منہ کا مقام بہت بلند ہے، نیز وہ کھانے کی جگہ ہے، وہاں بایاں ہاتھ مناسب نہیں۔ ناک جھاڑنا غلاظت کی صفائی ہے، لہٰذا یہ بائیں ہاتھ ہی سے مناسب ہے، بخلاف منہ کی صفائی کہ وہ دائیں ہاتھ سے ہونی چاہیے کیونکہ منہ کا مقام بہت بلند ہے، نیز وہ کھانے کی جگہ ہے، وہاں بایاں ہاتھ مناسب نہیں۔