سنن النسائي - حدیث 903

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ بَاب الْبَدَاءَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ قَبْلَ السُّورَةِ سكت عنه الشيخ الألباني أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَسْتَفْتِحُونَ الْقِرَاءَةَ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 903

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: کوئی سورت پڑھنے سے پہلے سورۂ فاتحہ سے آغاز کرنا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما قراءت کو (الحمدللہ رب العالمین) سے شروع فرمایا کرتے تھے۔
تشریح : (۱)ثابت ہوا کہ ہر رکعت میں قراءت کی ابتدا سورۂ فاتحہ سے ہوگی کیونکہ یہ نماز میں فرض ہے۔ یہ دوسری قراءت کی جگہ کفایت کرسکتی ہے۔ کوئی اور سورت اس کی جگہ کفایت نہیں کرے گی (جیسے فرض نماز کی آخری ایک یا دو رکعتیں)۔ (۲)اس روایت سے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) بلند آواز سے یا مطلقاً نہ پڑھنے پر استدلال کیا گیا ہے مگر یہ استدلال قوی نہیں کیونکہ (الحمدللہ رب العالمین) سورۂ فاتحہ کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے، اس لیے کہ (الحمدللہ رب العالمین) سورۂ فاتحہ کے نام کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری، حدیث:۵۰۶، میں ہے۔ اور (بسم اللہ الرحمن الرحیم) چونکہ فاتحہ کا جز ہے، اس لیے وہ ضرور پڑھی جائے گی، نیز یہ حدیث (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کے آہستہ پڑھنے کے تو قطعاً منافی نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر عمل (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کو آہستہ پڑھنے کا ہے اور (الحمدللہ رب العالمین) سے آپ بلند آواز سے قراءت شروع فرماتے، لہٰذا مالکیہ کا (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کو مطلقاً نہ پڑھنا درست نہیں۔ واللہ اعلم۔ (۱)ثابت ہوا کہ ہر رکعت میں قراءت کی ابتدا سورۂ فاتحہ سے ہوگی کیونکہ یہ نماز میں فرض ہے۔ یہ دوسری قراءت کی جگہ کفایت کرسکتی ہے۔ کوئی اور سورت اس کی جگہ کفایت نہیں کرے گی (جیسے فرض نماز کی آخری ایک یا دو رکعتیں)۔ (۲)اس روایت سے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) بلند آواز سے یا مطلقاً نہ پڑھنے پر استدلال کیا گیا ہے مگر یہ استدلال قوی نہیں کیونکہ (الحمدللہ رب العالمین) سورۂ فاتحہ کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے، اس لیے کہ (الحمدللہ رب العالمین) سورۂ فاتحہ کے نام کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری، حدیث:۵۰۶، میں ہے۔ اور (بسم اللہ الرحمن الرحیم) چونکہ فاتحہ کا جز ہے، اس لیے وہ ضرور پڑھی جائے گی، نیز یہ حدیث (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کے آہستہ پڑھنے کے تو قطعاً منافی نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر عمل (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کو آہستہ پڑھنے کا ہے اور (الحمدللہ رب العالمین) سے آپ بلند آواز سے قراءت شروع فرماتے، لہٰذا مالکیہ کا (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کو مطلقاً نہ پڑھنا درست نہیں۔ واللہ اعلم۔