سنن النسائي - حدیث 902

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ نَوْعٌ آخَرُ مِنْ الذِّكْرِ بَعْدَ التَّكْبِيرِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ثَابِتٍ وَقَتَادَةَ وَحُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِنَا إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ وَقَدْ حَفَزَهُ النَّفَسُ فَقَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ قَالَ أَيُّكُمْ الَّذِي تَكَلَّمَ بِكَلِمَاتٍ فَأَرَمَّ الْقَوْمُ قَالَ إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ بَأْسًا قَالَ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ جِئْتُ وَقَدْ حَفَزَنِي النَّفَسُ فَقُلْتُهَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ رَأَيْتُ اثْنَيْ عَشَرَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا أَيُّهُمْ يَرْفَعُهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 902

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: تکبیر تحریمہ کے بعد ایک اور ذکر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک آدمی آیا اور مسجد میں داخل ہوا اور جب کہ اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ اس نے کہا: [اللہ اکبر، الحمدللہ۔۔۔ مباکافیہ] ’’اللہ بہت بڑا ہے۔ تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، بہت زیادہ تعریف، پاکیزہ تعریف، بابرکت تعریف۔‘‘ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پوری فرمائی تو پوچھا: ’’تم میں سے کس نے کچھ کلمات (بلند آواز سے ) کہے تھے؟‘‘ لوگ چپ رہے۔ آپ نے (ان کا خوف دور کرنے کے لیے) فرمایا: ’’بے شک! اس نے کوئی غلط کلمات نہیں کہے۔‘‘ اس شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے۔ دراصل میں آیا تو میرا سانس پھولا ہوا تھا (بے اختیار آواز بلند ہوگئی) تو میں نے وہ کلمات کہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے دیکھا کہ بارہ فرشتے ان کلمات کی طرف لپکے تھے کہ کون ان کلمات کو اٹھا کر لے جائے (اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرے؟)‘‘
تشریح : (۱)سانس کا پھولنا دلیل ہے کہ وہ صحابی رضی اللہ عنہ نماز کی طرف کافی تیز تیز آئے تھے۔ گویا بھاگنے سے کم کم تیزی جائز ہے، البتہ سنجیدگی اور وقار قائم رہے۔ (۲)سانس پھولنے کی وجہ سے وہ اپنی آواز پر قابو نہ رکھ سکے، اس لیے آواز اونچی ہوگئی جو دوسروں کو سنائی دی۔ (۳)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ باہمی تعلق انتہائی مشفقانہ تھا اور آپ ہر اچھے موقع پر اپنے صحابہ کی دلجوئی کرتے تھے۔ (۱)سانس کا پھولنا دلیل ہے کہ وہ صحابی رضی اللہ عنہ نماز کی طرف کافی تیز تیز آئے تھے۔ گویا بھاگنے سے کم کم تیزی جائز ہے، البتہ سنجیدگی اور وقار قائم رہے۔ (۲)سانس پھولنے کی وجہ سے وہ اپنی آواز پر قابو نہ رکھ سکے، اس لیے آواز اونچی ہوگئی جو دوسروں کو سنائی دی۔ (۳)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ باہمی تعلق انتہائی مشفقانہ تھا اور آپ ہر اچھے موقع پر اپنے صحابہ کی دلجوئی کرتے تھے۔