سنن النسائي - حدیث 898

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ نَوْعٌ آخَرُ مِنْ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنِي عَمِّي الْمَاجِشُونُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاةَ كَبَّرَ ثُمَّ قَالَ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنْ الْمُسْلِمِينَ اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَنَا عَبْدُكَ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 898

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: تکبیر و قراءت کے درمیان ایک اور دعا اور ذکر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو اللہ اکبر کہتے اور فرماتے: [وجھت وجھی للذی فطر السموات۔۔۔واتوب الیک] ’’میں نے اپنا چہرہ اس ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمان اور زمین پیدا فرمائے، اس حال میں کہ میں سچے دین کا تابع دار ہوں اور جھوٹے دین سے بیزار ہوں۔ اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اللہ کے ساتھ دوسرے کو شریک بناتے ہیں۔ یقیناً میری نماز، میری دیگر عبادات، میری زندگی اور میری موت صرف اللہ کے لیے ہے جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھےا سی چیز کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ اے اللہ! تو کامل بادشاہ ہے۔ تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔ میں تیرا بندہ اور غلام ہوں۔ میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اور میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، لہٰذا میرے سارے گناہ معاف فرما۔ تیرے سوا کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں۔ اور اچھی عادات و اخلاق کی طرف میری رہنمائی فرما۔ تیرے سوا کوئی ان کی طرف رہنمائی نہیں کرسکتا۔ اور برے اخلاق و عادات کو مجھ سے دور فرما۔ تیرے سوا کوئی انھیں دور نہیں کرسکتا۔ میں حاضر ہوں۔ میں تیرا فرماں بردار ہوں۔ اور خیر سب کی سب تیرے ہاتھوں میں ہے اور شر کی نسبت تیری طرف نہیں۔ میں تیری مدد سے ہوں اور تیرے سپرد ہوں۔ تو بابرکت اور بلندوبالا ہے۔ میں تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔‘‘
تشریح : (۱)اس روایت کے بعض طرق میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض نماز شروع فرماتے تو یہ دعا پڑھتے اور بعض میں رات کی نماز کا ذکر ہے، گویا یہ دعا فرض اور نفل دونوں میں پڑھی جاسکتی ہے، البتہ جماعت کی صورت میں مقتدیوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ (۲) ’’اللہ اکبر کہتے، پھر فرمات۔‘‘ یہ صراحت ہے کہ آپ یہ دعا تکبیرتحریمہ کے بعد پڑھتے، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ یہ دعا تکبیر تحریمہ سے قبل پڑھی جائے۔ (۲)[انا من المسلمین] میں مسلمان ہوں، حالانکہ آپ تو نبی تھے۔ دراصل یہ امت کو تعلیم دینے کے لیے ہے۔ متن میں لغوی ترجمہ کیا گیا ہے: ’’میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔‘‘ یہ نبی اور امتی سب کے لیے برابر ہے۔ آگے آنے والی پوری دعا امت کے لیے ہے ورنہ آپ تو معصوم تھے اور اخلاق کاملہ و فاضلہ سے مزین تھے۔ (۴)’’شر کی نسبت سے تیری طرف نہیں۔ ‘‘ البتہ خیر کے ساتھ ملا کر کہا جاسکتا ہے۔ خیروشر کا خالق، ورنہ اس میں بے ادبی کا پہلو نمایاں ہے۔ اس جملے کے اور بھی مفہوم بیان کیے گئے ہیں، مثلاً: شر کے ساتھ تیرا قرب حاصل نہیں کیاجاسکتا۔ یا شر تیری طرف نہیں چڑھتا بلکہ پاکیزہ کلمات تیری طرف چڑھتے ہیں۔ یا تیرے پیدا کرنے کے لحاظ سے کوئی چیز شر نہیں اگر کسی کو شر کہا جاتا ہے تو وہ کسی نہ کسی مخلوق کے لحاظ سے ہے۔ جو چیز ایک مخلوق کے لحاظ سے شر ہے، بسااوقات وہ دوسری مخلوق کے لحاظ سے خیر ہوجاتی ہے۔ یا جو چیز ایک وقت شر ہے، وہ دوسرے اوقات میں خیر بھی ہوسکتی ہے، لہٰذا حکمت کے لحاظ سے ہر چیز خیرہے۔ (۱)اس روایت کے بعض طرق میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض نماز شروع فرماتے تو یہ دعا پڑھتے اور بعض میں رات کی نماز کا ذکر ہے، گویا یہ دعا فرض اور نفل دونوں میں پڑھی جاسکتی ہے، البتہ جماعت کی صورت میں مقتدیوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ (۲) ’’اللہ اکبر کہتے، پھر فرمات۔‘‘ یہ صراحت ہے کہ آپ یہ دعا تکبیرتحریمہ کے بعد پڑھتے، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ یہ دعا تکبیر تحریمہ سے قبل پڑھی جائے۔ (۲)[انا من المسلمین] میں مسلمان ہوں، حالانکہ آپ تو نبی تھے۔ دراصل یہ امت کو تعلیم دینے کے لیے ہے۔ متن میں لغوی ترجمہ کیا گیا ہے: ’’میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔‘‘ یہ نبی اور امتی سب کے لیے برابر ہے۔ آگے آنے والی پوری دعا امت کے لیے ہے ورنہ آپ تو معصوم تھے اور اخلاق کاملہ و فاضلہ سے مزین تھے۔ (۴)’’شر کی نسبت سے تیری طرف نہیں۔ ‘‘ البتہ خیر کے ساتھ ملا کر کہا جاسکتا ہے۔ خیروشر کا خالق، ورنہ اس میں بے ادبی کا پہلو نمایاں ہے۔ اس جملے کے اور بھی مفہوم بیان کیے گئے ہیں، مثلاً: شر کے ساتھ تیرا قرب حاصل نہیں کیاجاسکتا۔ یا شر تیری طرف نہیں چڑھتا بلکہ پاکیزہ کلمات تیری طرف چڑھتے ہیں۔ یا تیرے پیدا کرنے کے لحاظ سے کوئی چیز شر نہیں اگر کسی کو شر کہا جاتا ہے تو وہ کسی نہ کسی مخلوق کے لحاظ سے ہے۔ جو چیز ایک مخلوق کے لحاظ سے شر ہے، بسااوقات وہ دوسری مخلوق کے لحاظ سے خیر ہوجاتی ہے۔ یا جو چیز ایک وقت شر ہے، وہ دوسرے اوقات میں خیر بھی ہوسکتی ہے، لہٰذا حکمت کے لحاظ سے ہر چیز خیرہے۔