سنن النسائي - حدیث 896

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ بَاب الدُّعَاءِ بَيْنَ التَّكْبِيرَةِ وَالْقِرَاءَةِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ سَكَتَ هُنَيْهَةً فَقُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تَقُولُ فِي سُكُوتِكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ قَالَ أَقُولُ اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنْ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 896

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: تکبیر تحریمہ اور قراءت فاتحہ کے درمیان پڑھی جانے والی دعا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو تھوڑی دیر خاموش رہتے۔ میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اے اللہ کے رسول! آپ تکبیرتحریمہ اور قراءت کے درمیان خاموشی کے دوران میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’میں یہ پڑھتا ہوں: [اللھم باعد بینی۔۔۔ والبرد] اے اللہ! میرے اور میری غلطیوں کے درمیان اتنا فاصلہ فرما دے جتنا تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان کیا ہے۔ اے اللہ! مجھے میری غلطیوں سے اس طرح پاک اور صاف فرما جیسے سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! مجھے غلطیوں سے برف، پانی اور اولوں سے دھودے۔‘‘
تشریح : (۱)دعائے استفتاح کے سلسلے میں سب سے زیادہ صحیح روایت یہ ہے، لہٰذا اس کا پڑھنا اولیٰ ہے۔ امام مالک دعائے استفتاح کے قائل نہیں مگر اتنی روایات صحیحہ کی موجودگی میں یہ موقف حیران کن ہے۔ (۲)پانی، برف اور اولوں سے مراد مختلف قسم کی رحمتیں ہیں۔ باری تعالیٰ کی مختلف صفات ہیں، مثلاً: عفوودرگزر، مغفرت اور رحمت۔ پانی کے ساتھ برف اور اولوں کا ذکر تاکید کے لیے کیا گیا ہے، یعنی اے اللہ! ان گناہوں کی حدت و تمازت کو، جو جہنم کی آگ میں لے جانے کا سبب ہیں، پانی، برف اور اولوں سے ختم کردے۔ (۳)’’میرے اور میری غلطیوں کے درمیان مشرق و مغرب جتنی دوری ڈال دے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مشرق اور مغرب کا آپس میں ملنا محال ہے، اسی طرح مجھ سے گناہوں کو اور گناہوں کو مجھ سے دور رکھ۔ (۴) علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ممکن ہے اس دعائے استفتاح میں تین زمانوں کی طرف اشارہ ہو، یعنی میرے اور میری غلطیوں کے درمیان دوری سے مراد مستقبل کے گناہ وہں، تنقیہ (گناہوں کی صفائی) سے مراد زمانۂ حال کی لغزشیں ہوں اور گناہ دھونے سے مراد زمانہ ماضی میں کیے ہوئے گناہ ہوں۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباری: ۲؍۲۹۸، تحت حدیث: ۷۴۴) (۵)اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ برف اور اولوں سے طہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔ (۶)اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و واقعات، آپ کی حرکات و سکنات دریافت کرتے رہتے تھے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے سے اپنا مکمل دین محفوظ شکل میں ہم تک پہنچا دیا۔ (۱)دعائے استفتاح کے سلسلے میں سب سے زیادہ صحیح روایت یہ ہے، لہٰذا اس کا پڑھنا اولیٰ ہے۔ امام مالک دعائے استفتاح کے قائل نہیں مگر اتنی روایات صحیحہ کی موجودگی میں یہ موقف حیران کن ہے۔ (۲)پانی، برف اور اولوں سے مراد مختلف قسم کی رحمتیں ہیں۔ باری تعالیٰ کی مختلف صفات ہیں، مثلاً: عفوودرگزر، مغفرت اور رحمت۔ پانی کے ساتھ برف اور اولوں کا ذکر تاکید کے لیے کیا گیا ہے، یعنی اے اللہ! ان گناہوں کی حدت و تمازت کو، جو جہنم کی آگ میں لے جانے کا سبب ہیں، پانی، برف اور اولوں سے ختم کردے۔ (۳)’’میرے اور میری غلطیوں کے درمیان مشرق و مغرب جتنی دوری ڈال دے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مشرق اور مغرب کا آپس میں ملنا محال ہے، اسی طرح مجھ سے گناہوں کو اور گناہوں کو مجھ سے دور رکھ۔ (۴) علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ممکن ہے اس دعائے استفتاح میں تین زمانوں کی طرف اشارہ ہو، یعنی میرے اور میری غلطیوں کے درمیان دوری سے مراد مستقبل کے گناہ وہں، تنقیہ (گناہوں کی صفائی) سے مراد زمانۂ حال کی لغزشیں ہوں اور گناہ دھونے سے مراد زمانہ ماضی میں کیے ہوئے گناہ ہوں۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباری: ۲؍۲۹۸، تحت حدیث: ۷۴۴) (۵)اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ برف اور اولوں سے طہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔ (۶)اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و واقعات، آپ کی حرکات و سکنات دریافت کرتے رہتے تھے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے سے اپنا مکمل دین محفوظ شکل میں ہم تک پہنچا دیا۔