سنن النسائي - حدیث 890

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ بَاب مَوْضِعِ الْيَمِينِ مِنْ الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ زَائِدَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ أَخْبَرَهُ قَالَ قُلْتُ لَأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ فَقَامَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا بِأُذُنَيْهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ مِثْلَهَا قَالَ وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ لَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ مِثْلَهَا ثُمَّ سَجَدَ فَجَعَلَ كَفَّيْهِ بِحِذَاءِ أُذُنَيْهِ ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ وَرُكْبَتِهِ الْيُسْرَى وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِهِ الْأَيْمَنِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَيْنِ مِنْ أَصَابِعِهِ وَحَلَّقَ حَلْقَةً ثُمَّ رَفَعَ إِصْبَعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بِهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 890

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: نماز میں دایاں ہاتھ پائیں پر کہاں رکھا جائے؟ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) میں نے (اپنے دل میں) کہا: میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو غور سے دیکھوں گا کہ آپ کیسے نماز پڑھتے ہیں؟ چنانچہ میں نے (توجہ سے) آپ کی طرف دیکھا۔ آپ کھڑے ہوئے اللہ اکبر اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے حتی کہ وہ آپ کے کانوں کے برابر ہوگئے۔ پھر آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی، جوڑ اور کلائی پر رکھا۔ پھر جب آپ نے رکوع کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے اسی (پہلے رفع الیدین کی) طرح ہاتھ اٹھائے اور آپ نے اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے۔ پھر جب آپ نے اپنا سر اٹھایا تو اسی طرح رفع الیدین کیا۔ پھر سجدہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کانوں کے برابر رکھا۔ پھر بیٹھے اور اپنا بایاں پاؤں بچھایا اور اپنی بائیں ہتھیلی اپنی بائیں ران اور گھٹنے پر رکھی اور اپنی دائیں کہنی کا کنارہ اپنی دائیں ران پر رکھا۔ پھر ہاتھ کی دو انگلیاں بند کیں اور (درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ بنایا۔ پھر اپنی (تشہد کی) انگلی کو اٹھایا، چنانچہ میں نے دیکھا، آپ اسے حرکت دیتے تھے اس کے ساتھ دعا کرتے تھے۔
تشریح : (۱)اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دائیں ہاتھ (ہتھیلی) کو بائیں ہاتھ کے جوڑ پر اس طرح رکھے کہ ہتھیلی کا اگلا حصہ (انگلیاں) بائیں کلائی پر اور پچھلا حصہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر ہو۔ یہ تب ہے جب ہاتھ سے مراد صرف ہتھیلی ہو۔ ہاتھ سے کہنی تک بازو بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے کنارےبائیں کہنی تک پہنچ جائیں گے۔ اگرچہ یہ طریقہ بھی درست ہے کیونکہ ایک روایت میں ذراع کو ذراع پر رکھنے کا ذکر ہے اور ذراع کہنی تک ہوتا ہے۔ لیکن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل سے اس حدیث پر بھی عمل ہوجاتا ہے۔ اگرچہ اس (ذراع والی) صورت کو اپنانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (۲)صحیح مسلم کی ایک حدیث میں، جو کہ سنن نسائی میں نمبر ۸۸۸ کے تحت گزری ہے، دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑنے کا بھی ذرک ہے۔ تو دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ مختلف اوقات میں دونوں پر عمل ممکن ہے، کبھی ایک پر عمل کرلے اور کبھی دوسری پر۔ دونوں طرح صحیح ہے۔ اس طرح دونوں روایات پر عمل ہوجائے گا۔ لیکن دونوں روایات میں اس طرح تطبیق دینا کہ دائیں ہاتھ کی درمیانی تین انگلیاں بائیں پر رکھے اور چھوٹی انگلی اور انگوٹے سے جوڑ کو پکڑلے، باطل ہے کیونکہ اس صورت میں حدیث میں وارد دونوں طریقوں میں سے کسی پر بھی عمل نہیں ہوتا بلکہ ایک نئی تیسریشکل بن جاتی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں، لہٰذا ایسا کرنا درست نہیں۔ صحیح طریقہ یہی ہے کہ کبھی دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ لے اور کبھی دائیں سے بائیں کو پکڑلے۔ واللہ اعلم۔ (۳)’’دائیں کہنی کا کنارہ ران پر رکھا۔‘‘ اس کنارے سے کہنی کا کلائی والا کنارہ مراد ہے۔ گویا کہنی کو ران کی جڑوالی طرف پر رکھ کر کھڑا کرلے اور کلائی کو ران پر بچھالے۔ مگر یہ صورت صرف تررک (قعدہ میں پاؤں کی بجائے زمین پر بیٹھنا اور پاؤں کو دائیں پنڈلی کے نیچے سے باہر نکال لینا) کی صورت میں ممکن ہے۔ پاؤں پر بیٹھنے کی صورت میں صرف ہتھیلیاں ران اور گھٹنوں پر ہوں گی اور بازو قوس کی تانت کی طرح ہوں گے۔ (۴)تشہد میں بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر اس طرح رکھا جائے کہ انگلیاں گھٹنے پرہوں اور ہتھیلیاں ران پر مگر دایاں ہاتھ بند کرکے رکھا جائے۔ اس حدیث میں بند کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کنارے کی دو انگلیاں بند کرے۔ درمیانی انگلی اورانگوٹھے کا حلقہ بنا کر تشہد کی انگلی کو کھلا چھوڑ دے جس طرح کسی چیز کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ (۵)اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران تشہد میں سلام تک انگلی کو حرکت دینا مسنون ہے۔ [یحرک] فعل مضارع ہے جو یہاں استمرار کا فائدہ دے رہا ہے کیونکہ [یدعوبھا] اس سے حال ہے، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انگلی کو حرکت دے رہے تھے، اور آں حالیکہ آپ اس کے ساتھ دعا کر رہے تھے۔ نامور محدث شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: [وفیہ تحریکھا دائما، اذ الدعاء بد التشھد] ’’اس حدیث سے پورے تشہد میں انگلی کو حرکت دینا ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ دعا تشہد کے بعد (سلام تک) ہوتی ہے۔‘‘ (عون المعبود، الصلاۃ، باب الاشارۃ فی التشھد، حدیث:۸۹۸) سنن ابی داود کی ایک روایت میں [لایحرکھا] کے الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ شاذ اور عیف ہیں۔ ان الفاظ کو روایت کرنے میں محمد بن عجلان سے زیاد بن سعد متفرد ہے۔ عامر بن عبداللہ سے ابن عجلان کے علاوہ باقی ووثقہ راویان الفاظ کو بیان نہیں کرتے، نیز زیاد کے علاوہ محمد بن عجلان کے باقی چار ثقہ شاگرد یہ الفاظ بیان نہیں کرتے۔ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے مگر اس میں یہ اضافہ مذکور نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ضعیف سنن ابی داود (مفصل) للالبانی، حدیث:۱۷۵) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات المدلسین میں محمد بن عجلان کو یسرے طبقے کے مدلسین میں شمار کیا ہے اور ان الفاظ میں ابن عجلان کی عامر بن عبداللہ سے سماع کی تصریح نہیں ملی، لہٰذا [لایحرکھا] کے الفاظ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ درست موقف یہی ہے کہ تشہد میں انگلی کو حرکت دیتے رہنا بھی جائز ہے۔ لیکن ایسا وقتاً فوقتاً کرنا چاہیے کیونکہ اکثر روایات میں صرف اشارے کا ذکر ہے جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی روایت میں ہے۔ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ نماز بیان کیا ہے انھوں نے اسے بیان نہیں کیا۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر عمل اشارے کا تھانہ کہ حرکت دینے کا۔ اور اشارے کا طریقہ یہ ہے کہ ۵۳کی گرہ لگا کر مسنون تشہد سے لے کر آخر تک انگلی کو کھڑا رکھنا۔ (۶)اشارہ اور حرکت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ لغت میں ان کے الگ الگ معانی ہیں۔ (۱)اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دائیں ہاتھ (ہتھیلی) کو بائیں ہاتھ کے جوڑ پر اس طرح رکھے کہ ہتھیلی کا اگلا حصہ (انگلیاں) بائیں کلائی پر اور پچھلا حصہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر ہو۔ یہ تب ہے جب ہاتھ سے مراد صرف ہتھیلی ہو۔ ہاتھ سے کہنی تک بازو بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے کنارےبائیں کہنی تک پہنچ جائیں گے۔ اگرچہ یہ طریقہ بھی درست ہے کیونکہ ایک روایت میں ذراع کو ذراع پر رکھنے کا ذکر ہے اور ذراع کہنی تک ہوتا ہے۔ لیکن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل سے اس حدیث پر بھی عمل ہوجاتا ہے۔ اگرچہ اس (ذراع والی) صورت کو اپنانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (۲)صحیح مسلم کی ایک حدیث میں، جو کہ سنن نسائی میں نمبر ۸۸۸ کے تحت گزری ہے، دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑنے کا بھی ذرک ہے۔ تو دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ مختلف اوقات میں دونوں پر عمل ممکن ہے، کبھی ایک پر عمل کرلے اور کبھی دوسری پر۔ دونوں طرح صحیح ہے۔ اس طرح دونوں روایات پر عمل ہوجائے گا۔ لیکن دونوں روایات میں اس طرح تطبیق دینا کہ دائیں ہاتھ کی درمیانی تین انگلیاں بائیں پر رکھے اور چھوٹی انگلی اور انگوٹے سے جوڑ کو پکڑلے، باطل ہے کیونکہ اس صورت میں حدیث میں وارد دونوں طریقوں میں سے کسی پر بھی عمل نہیں ہوتا بلکہ ایک نئی تیسریشکل بن جاتی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں، لہٰذا ایسا کرنا درست نہیں۔ صحیح طریقہ یہی ہے کہ کبھی دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ لے اور کبھی دائیں سے بائیں کو پکڑلے۔ واللہ اعلم۔ (۳)’’دائیں کہنی کا کنارہ ران پر رکھا۔‘‘ اس کنارے سے کہنی کا کلائی والا کنارہ مراد ہے۔ گویا کہنی کو ران کی جڑوالی طرف پر رکھ کر کھڑا کرلے اور کلائی کو ران پر بچھالے۔ مگر یہ صورت صرف تررک (قعدہ میں پاؤں کی بجائے زمین پر بیٹھنا اور پاؤں کو دائیں پنڈلی کے نیچے سے باہر نکال لینا) کی صورت میں ممکن ہے۔ پاؤں پر بیٹھنے کی صورت میں صرف ہتھیلیاں ران اور گھٹنوں پر ہوں گی اور بازو قوس کی تانت کی طرح ہوں گے۔ (۴)تشہد میں بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر اس طرح رکھا جائے کہ انگلیاں گھٹنے پرہوں اور ہتھیلیاں ران پر مگر دایاں ہاتھ بند کرکے رکھا جائے۔ اس حدیث میں بند کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کنارے کی دو انگلیاں بند کرے۔ درمیانی انگلی اورانگوٹھے کا حلقہ بنا کر تشہد کی انگلی کو کھلا چھوڑ دے جس طرح کسی چیز کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ (۵)اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران تشہد میں سلام تک انگلی کو حرکت دینا مسنون ہے۔ [یحرک] فعل مضارع ہے جو یہاں استمرار کا فائدہ دے رہا ہے کیونکہ [یدعوبھا] اس سے حال ہے، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انگلی کو حرکت دے رہے تھے، اور آں حالیکہ آپ اس کے ساتھ دعا کر رہے تھے۔ نامور محدث شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: [وفیہ تحریکھا دائما، اذ الدعاء بد التشھد] ’’اس حدیث سے پورے تشہد میں انگلی کو حرکت دینا ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ دعا تشہد کے بعد (سلام تک) ہوتی ہے۔‘‘ (عون المعبود، الصلاۃ، باب الاشارۃ فی التشھد، حدیث:۸۹۸) سنن ابی داود کی ایک روایت میں [لایحرکھا] کے الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ شاذ اور عیف ہیں۔ ان الفاظ کو روایت کرنے میں محمد بن عجلان سے زیاد بن سعد متفرد ہے۔ عامر بن عبداللہ سے ابن عجلان کے علاوہ باقی ووثقہ راویان الفاظ کو بیان نہیں کرتے، نیز زیاد کے علاوہ محمد بن عجلان کے باقی چار ثقہ شاگرد یہ الفاظ بیان نہیں کرتے۔ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے مگر اس میں یہ اضافہ مذکور نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ضعیف سنن ابی داود (مفصل) للالبانی، حدیث:۱۷۵) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات المدلسین میں محمد بن عجلان کو یسرے طبقے کے مدلسین میں شمار کیا ہے اور ان الفاظ میں ابن عجلان کی عامر بن عبداللہ سے سماع کی تصریح نہیں ملی، لہٰذا [لایحرکھا] کے الفاظ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ درست موقف یہی ہے کہ تشہد میں انگلی کو حرکت دیتے رہنا بھی جائز ہے۔ لیکن ایسا وقتاً فوقتاً کرنا چاہیے کیونکہ اکثر روایات میں صرف اشارے کا ذکر ہے جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی روایت میں ہے۔ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ نماز بیان کیا ہے انھوں نے اسے بیان نہیں کیا۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر عمل اشارے کا تھانہ کہ حرکت دینے کا۔ اور اشارے کا طریقہ یہ ہے کہ ۵۳کی گرہ لگا کر مسنون تشہد سے لے کر آخر تک انگلی کو کھڑا رکھنا۔ (۶)اشارہ اور حرکت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ لغت میں ان کے الگ الگ معانی ہیں۔