سنن النسائي - حدیث 888

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ مُوسَى بْنِ عُمَيْرٍ الْعَنْبَرِيِّ وَقَيْسِ بْنِ سُلَيْمٍ الْعَنْبَرِيِّ قَالَا حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ قَائِمًا فِي الصَّلَاةِ قَبَضَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 888

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا حضرت وائل بن حجررضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو دیکھا، جب آپ نماز میں کھڑے ہوتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر اسے پکڑتے۔
تشریح : (۱)معلوم ہوا کہ نماز کے قیام میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھا جائے گا۔ جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے۔ مالکیہ اور اہل تشیع ہاتھ چھوڑنے کے قائل ہیں مگر ان کے پاس اس کی ایک بھی دلیل نہیں،ٹوٹی پھوٹی بھی نہیں۔ (۲)حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ہی سے صحیح ابن خزیمہ (۱؍۴۷۹) میں اور حضرت قبضیہ بن ہلب رضیاللہ عنہ سے مسند احمد: (۵؍۲۲۶) میں اور حضرت طاؤس رحمہ اللہ سے سنن ابی دائود (الصلاۃ، حدیث:۷۵۹) میں روایات ہیں کہ ہاتھ سینے پر باندھے جائیں۔ یہ روایات صحیح ہیں۔ ابوداود کی روایت مرسل ہے جو حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک قابل حجت ہے۔ ناف سے نیچے کی روایات سب کی سب ضعیف ہیں، لہٰذا احادیث صحیحہ کی رو سے ہاتھ سینے ہی پر باندھے جائیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حالت ایک سائل کی سی ہے اور اس طرح نمازی فضول حرکات سے بھی محفوظ رہتا ہے اور یہ خشوع خضوع کے قریب تر ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: ۱۱؍۱۳۵۔۱۵۰، وسنن ابوداود (اردو) الصلاۃ ، حدیث:۷۵۹، طبع دارالسلام) (۱)معلوم ہوا کہ نماز کے قیام میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھا جائے گا۔ جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے۔ مالکیہ اور اہل تشیع ہاتھ چھوڑنے کے قائل ہیں مگر ان کے پاس اس کی ایک بھی دلیل نہیں،ٹوٹی پھوٹی بھی نہیں۔ (۲)حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ہی سے صحیح ابن خزیمہ (۱؍۴۷۹) میں اور حضرت قبضیہ بن ہلب رضیاللہ عنہ سے مسند احمد: (۵؍۲۲۶) میں اور حضرت طاؤس رحمہ اللہ سے سنن ابی دائود (الصلاۃ، حدیث:۷۵۹) میں روایات ہیں کہ ہاتھ سینے پر باندھے جائیں۔ یہ روایات صحیح ہیں۔ ابوداود کی روایت مرسل ہے جو حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک قابل حجت ہے۔ ناف سے نیچے کی روایات سب کی سب ضعیف ہیں، لہٰذا احادیث صحیحہ کی رو سے ہاتھ سینے ہی پر باندھے جائیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حالت ایک سائل کی سی ہے اور اس طرح نمازی فضول حرکات سے بھی محفوظ رہتا ہے اور یہ خشوع خضوع کے قریب تر ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: ۱۱؍۱۳۵۔۱۵۰، وسنن ابوداود (اردو) الصلاۃ ، حدیث:۷۵۹، طبع دارالسلام)