سنن النسائي - حدیث 878

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ قَبْلَ التَّكْبِيرِ صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى تَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ يُكَبِّرُ قَالَ وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يُكَبِّرُ لِلرُّكُوعِ وَيَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ وَيَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَلَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 878

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: رفع الیدین تکبیر تحریمہ سے پہلے کیا جائے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے حتی کہ وہ آپ کے کندھوں کے برابر ہوجاتے، پھر اللہ اکبر کہتے۔ انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فعل اس وقت بھی کرتے جب رکوع کی تکبیر کہتے۔ اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو پھر یہی کرتے اور فرماتے [سمع اللہ لمن حمدہ] اور سجدے میں ایسا نہیں کرتے تھے۔
تشریح : (۱)تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرنے کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے ساتھ کیا جائے یا پہلے یا کہ بعد میں۔ جمہور کے نزدیک رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے ساتھ کیا جائے، موالک، شوافع اورحنابلہ کا بھی یہی موقف ہے۔ احناف کے نزدیک رفع الیدین پہلے کیا جائے اور تکبیر تحریمہ بعد میں کہی جائے کیونکہ ہاتوں کا اٹھانا معبودان باطلہ کی نفی کے قائم مقام ہے اور اللہ اکبر میں توحید کا اثابت ہے۔اور عربی میں نفی پہلے ہوتی ہے اور اثبات بعد میں، جیسے لاالٰہ الا اللہ میں ہے۔ اور بعض کا موقف ہے کہ تکبیر تحریمہ پہلے کہی جائے اور رفع الیدین بعد میں کیا جائے۔ حدیث کی رو سے تینوں طریقے درست ہیں، کوئی طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: [رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم افتح التکبیر فی الصلاۃ فرفع یدیہ ین یکبر حتی یحعلھما حذو منکبیہ] ’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نماز کا افتتاح تکبیر تحریمہ سے کرتے اور تکبیر کہتے وقت رفع الیدین کرتے یہاں تک کہ انھیں کندھوں کے برابر لے جاتے۔‘‘ (صحیح البخاری، الاذان، حدیث:۷۳۸) نیز حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: [انہ رای رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یرفع یدیہ مع التکبیر] ’’انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے تھے۔‘‘ (سنن ابی داود، الصلاۃ حدیث:۷۵۲) یہ احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے ساتھ کیا جائے اور صحیح مسلم کی ایک روایت کے کچھ الفاظ اس طرح ہیں: [اذا قام الصلاۃ رفع یدیہ حتی تکونا حذو منکبیہ ثم کبر] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے، پھر تکبیر کہتے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث:۳۹۰(۲۳) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رفع الیدین تکبیر تحریمہ سے پہلے کیا جائے۔ اور صحیح مسلم ہی کی ایک اور روایت ہے، ابوقلابہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب آپ نماز شروع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر رفع الیدین کرتے۔۔۔ اور پھر فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث:۳۹۱) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے بعد کیا جائے۔ غرض مذکورہ تین طریقوں میں سے کوئی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے اور گاہے گاہے ہر ایک پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ تمام کی حیثیت برابر ہے۔ کسی طریقے کو ترجیح دینا درست نہیں کیونکہ ترجیح اس وقت دی جاتی ہے جب متعدد روایات پر عمل مشکل ہو، جبکہ یہاں ایسے نہیں ہے بلکہ مختلف اوقات میں ہر ایک روایت پر عمل ممکن ہے، لہٰذا جمع اولیٰ ہے۔ واللہ اعلم۔ (۲)امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین کی حکمت کے بارےاہل علم کی مختلف آراء ہیں: امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتاع کےلیے کرتا ہوں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عجزوانکسار اور خودسپردگی کا اظہار ہے اوریہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی قیدی پکڑا جائے تو وہ خود سپردگی کا اظہار کرنے کے لیے اپنے ہاتھ کھڑے کردیتا ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ جب بندہ ہاتھ کھڑے کرکے اللہ اکبر کہتا ہے تو اس کے قول اور فعل میں موافقت ہوجاتی ہے کہ وہ مام تر امور دنیا کو چھوڑ کراپنے رب سے مناجات کرنے کے لیے نماز کی طرف متوجہ ہوگیا ہے۔ (۱)تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرنے کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے ساتھ کیا جائے یا پہلے یا کہ بعد میں۔ جمہور کے نزدیک رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے ساتھ کیا جائے، موالک، شوافع اورحنابلہ کا بھی یہی موقف ہے۔ احناف کے نزدیک رفع الیدین پہلے کیا جائے اور تکبیر تحریمہ بعد میں کہی جائے کیونکہ ہاتوں کا اٹھانا معبودان باطلہ کی نفی کے قائم مقام ہے اور اللہ اکبر میں توحید کا اثابت ہے۔اور عربی میں نفی پہلے ہوتی ہے اور اثبات بعد میں، جیسے لاالٰہ الا اللہ میں ہے۔ اور بعض کا موقف ہے کہ تکبیر تحریمہ پہلے کہی جائے اور رفع الیدین بعد میں کیا جائے۔ حدیث کی رو سے تینوں طریقے درست ہیں، کوئی طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: [رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم افتح التکبیر فی الصلاۃ فرفع یدیہ ین یکبر حتی یحعلھما حذو منکبیہ] ’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نماز کا افتتاح تکبیر تحریمہ سے کرتے اور تکبیر کہتے وقت رفع الیدین کرتے یہاں تک کہ انھیں کندھوں کے برابر لے جاتے۔‘‘ (صحیح البخاری، الاذان، حدیث:۷۳۸) نیز حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: [انہ رای رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یرفع یدیہ مع التکبیر] ’’انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے تھے۔‘‘ (سنن ابی داود، الصلاۃ حدیث:۷۵۲) یہ احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے ساتھ کیا جائے اور صحیح مسلم کی ایک روایت کے کچھ الفاظ اس طرح ہیں: [اذا قام الصلاۃ رفع یدیہ حتی تکونا حذو منکبیہ ثم کبر] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے، پھر تکبیر کہتے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث:۳۹۰(۲۳) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رفع الیدین تکبیر تحریمہ سے پہلے کیا جائے۔ اور صحیح مسلم ہی کی ایک اور روایت ہے، ابوقلابہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب آپ نماز شروع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر رفع الیدین کرتے۔۔۔ اور پھر فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث:۳۹۱) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے بعد کیا جائے۔ غرض مذکورہ تین طریقوں میں سے کوئی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے اور گاہے گاہے ہر ایک پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ تمام کی حیثیت برابر ہے۔ کسی طریقے کو ترجیح دینا درست نہیں کیونکہ ترجیح اس وقت دی جاتی ہے جب متعدد روایات پر عمل مشکل ہو، جبکہ یہاں ایسے نہیں ہے بلکہ مختلف اوقات میں ہر ایک روایت پر عمل ممکن ہے، لہٰذا جمع اولیٰ ہے۔ واللہ اعلم۔ (۲)امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین کی حکمت کے بارےاہل علم کی مختلف آراء ہیں: امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتاع کےلیے کرتا ہوں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عجزوانکسار اور خودسپردگی کا اظہار ہے اوریہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی قیدی پکڑا جائے تو وہ خود سپردگی کا اظہار کرنے کے لیے اپنے ہاتھ کھڑے کردیتا ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ جب بندہ ہاتھ کھڑے کرکے اللہ اکبر کہتا ہے تو اس کے قول اور فعل میں موافقت ہوجاتی ہے کہ وہ مام تر امور دنیا کو چھوڑ کراپنے رب سے مناجات کرنے کے لیے نماز کی طرف متوجہ ہوگیا ہے۔