سنن النسائي - حدیث 877

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ بَاب الْعَمَلِ فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي سَالِمٌ ح و أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ عَنْ شُعَيْبٍ عَنْ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الزُّهْرِيُّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ التَّكْبِيرَ فِي الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حَتَّى يَجْعَلَهُمَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ إِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَقَالَ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَلَا يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يَسْجُدُ وَلَا حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنْ السُّجُودِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 877

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: نماز شروع کرتے وقت کیا کرنا چاہیے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاجب آپ تکبیر تحریمہ ہتے تو [اللہ اکبر] کہتے وقت اپنے ہاتھ اٹھاتے حتی کہ انھیں اپنے کندھوں کے برابر کرتے۔پھر جب رکوع کی تکبیر کہتے تو اسی طرح کرتے۔ پھر جب [سمع اللہ لمن حمدۃ] کہتے تو پھربھی ایسے ہی کرتے اور [ربنا ولک الحمد] کہتے۔ اور جب سجدے کو جاتے یا سجدے سے سر اٹھاتے تو ایسے نہیں کرتے تھے۔
تشریح : (۱)نماز کا افتتاح اللہ اکبر سے ہوگا۔ اسے تکبیر تحریمہ کہتے ہیں کیونکہ اس تکبیر سے نماز میں بہت سی چیزیں حرام ہوجاتی ہیں، مثلاً: کھانا پینا، چلنا پھرنا اوربات چیت کرنا وغیرہ۔ اللہ اکبر کے سوا کسی اور لفظ سے، خواہ وہ اس سے ملتا جلتا ہی ہو، نماز کا افتتاح درست نہیں۔ (۲)کندھوں یا کانوںتک دونوں ہاتھ اٹھانا رفع الیدین کہلاتا ہے۔ اور یہ نماز میں چار جگہ ثابت ہے: ٭تکبیرتحریمہ کے وقت۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جو اس رفع الیدین کو چھوڑتا ہے، وہ گناہ گار ہوگا۔ ٭رکوع سے پہلے۔ ٭رکوع کے بعد۔ ٭اور تیسری رکعت سے پہلے۔ مذکورہ صورتوں میں رفع الیدین کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل ہے اور یہ ایسی سنت ہے جسے صحابہ کی اتنی بڑی تعداد نے بیان کیا ہے کہ کوئی اور عمل صحابہ کی اتنی کثیر تعداد نے بیان نہیں کیا، یہاں تک کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اصحاب رسول میں سے کسی ایک سے یہ ثابت نہیں کہ وہ نماز میں رفع الیدین نہ کرتا ہو۔ حضتر وائلبن حجر رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نے نماز شروع کی تو اللہ اکبر کہا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر چادر اوڑھ لی، پھر دایاںہاتھ بائیں پر رکھا۔ جب رکوع کرنے لگے تو کپڑوں سے ہاتھ باہر نکالے، اللہ اکبر کہا اور رفع الیدین کیا، پھر رکوع میں چلے گئے۔ جب رکوع کرنے لگے تو کپڑوں سے ہاتھ باہر نکالے، اللہ اکبر کہا اور رفع الیدین کیا، پھر رکوع میں چلے گئے۔ جب رکوع سے اٹھے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہا اور رفع الیدین کیا۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث:۴۰۱) حضرت وائل بن حجر ۹اور۱۰ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اائے اور ۱۱ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، لہٰذا معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخر عمر تک رفع الیدین کرتے تھے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ رکوع کو جاتے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت اور تیسری رکعت کی ابتدا میں رفع الیدین کرنا سنت ہے مگر احناف اسے منسوخ سمجھتے ہیں جب کہ ان کے پاس نسخ کی کوئی دلیل نہیں ہے، سوائے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کے جو کہ ضعیف ہے۔ اور پھر اس کے مقابلے میں رفع الیدین کرنے والی روایات بہت زیادہ اور بہت قوی ہیں جیسا کہ بعض انصاف پسند حنفی علماء نے بھی اسے تسلیم کیا ہے، اس لیے عمل ان روایات پر ہوگا جو تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور سنداً قوی بھی، نہ کہ ایک آدھ روایت پر جو صحت و سند کے اعتبار سے قوی بھی نہیں ہے، لہٰذا ایک آدھ ضعیف روایت کو لے کر کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی اس سنتی صحیحہ کو منسوخ کہنا بہت بڑی ناانصافی ہے جب کہ آخر میں اسلام لانے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس رفع الیدین کوبیان کیا ہے، یعنی یہ سنت صحیحہ، متواترہ، غیرمنسوخہ ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (نیل الأوطار:۲؍۱۹۸۔۲۰۹) (۳)سجدے کو جاتے وقت یا سجدے سے اٹھتے وقت رفع الیدین قطعاً ثابت نہیں بلکہ اس کی صریح نفی آئی ہے، لہٰذا اس پر عمل درست نہیں۔ اگر کہیں ذکر ہے تو وہ منسوخ ہے یا اس سے مراد رکوع کے بعد رفع الیدین ہے جو رکوع اور سجدے کے درمیان ہوتا ہے۔ (۴)امام تسمیع و تحمید [سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا ولک الحمد] دونوں کہے گا۔ (۱)نماز کا افتتاح اللہ اکبر سے ہوگا۔ اسے تکبیر تحریمہ کہتے ہیں کیونکہ اس تکبیر سے نماز میں بہت سی چیزیں حرام ہوجاتی ہیں، مثلاً: کھانا پینا، چلنا پھرنا اوربات چیت کرنا وغیرہ۔ اللہ اکبر کے سوا کسی اور لفظ سے، خواہ وہ اس سے ملتا جلتا ہی ہو، نماز کا افتتاح درست نہیں۔ (۲)کندھوں یا کانوںتک دونوں ہاتھ اٹھانا رفع الیدین کہلاتا ہے۔ اور یہ نماز میں چار جگہ ثابت ہے: ٭تکبیرتحریمہ کے وقت۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جو اس رفع الیدین کو چھوڑتا ہے، وہ گناہ گار ہوگا۔ ٭رکوع سے پہلے۔ ٭رکوع کے بعد۔ ٭اور تیسری رکعت سے پہلے۔ مذکورہ صورتوں میں رفع الیدین کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل ہے اور یہ ایسی سنت ہے جسے صحابہ کی اتنی بڑی تعداد نے بیان کیا ہے کہ کوئی اور عمل صحابہ کی اتنی کثیر تعداد نے بیان نہیں کیا، یہاں تک کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اصحاب رسول میں سے کسی ایک سے یہ ثابت نہیں کہ وہ نماز میں رفع الیدین نہ کرتا ہو۔ حضتر وائلبن حجر رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نے نماز شروع کی تو اللہ اکبر کہا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر چادر اوڑھ لی، پھر دایاںہاتھ بائیں پر رکھا۔ جب رکوع کرنے لگے تو کپڑوں سے ہاتھ باہر نکالے، اللہ اکبر کہا اور رفع الیدین کیا، پھر رکوع میں چلے گئے۔ جب رکوع کرنے لگے تو کپڑوں سے ہاتھ باہر نکالے، اللہ اکبر کہا اور رفع الیدین کیا، پھر رکوع میں چلے گئے۔ جب رکوع سے اٹھے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہا اور رفع الیدین کیا۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث:۴۰۱) حضرت وائل بن حجر ۹اور۱۰ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اائے اور ۱۱ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، لہٰذا معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخر عمر تک رفع الیدین کرتے تھے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ رکوع کو جاتے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت اور تیسری رکعت کی ابتدا میں رفع الیدین کرنا سنت ہے مگر احناف اسے منسوخ سمجھتے ہیں جب کہ ان کے پاس نسخ کی کوئی دلیل نہیں ہے، سوائے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کے جو کہ ضعیف ہے۔ اور پھر اس کے مقابلے میں رفع الیدین کرنے والی روایات بہت زیادہ اور بہت قوی ہیں جیسا کہ بعض انصاف پسند حنفی علماء نے بھی اسے تسلیم کیا ہے، اس لیے عمل ان روایات پر ہوگا جو تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور سنداً قوی بھی، نہ کہ ایک آدھ روایت پر جو صحت و سند کے اعتبار سے قوی بھی نہیں ہے، لہٰذا ایک آدھ ضعیف روایت کو لے کر کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی اس سنتی صحیحہ کو منسوخ کہنا بہت بڑی ناانصافی ہے جب کہ آخر میں اسلام لانے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس رفع الیدین کوبیان کیا ہے، یعنی یہ سنت صحیحہ، متواترہ، غیرمنسوخہ ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (نیل الأوطار:۲؍۱۹۸۔۲۰۹) (۳)سجدے کو جاتے وقت یا سجدے سے اٹھتے وقت رفع الیدین قطعاً ثابت نہیں بلکہ اس کی صریح نفی آئی ہے، لہٰذا اس پر عمل درست نہیں۔ اگر کہیں ذکر ہے تو وہ منسوخ ہے یا اس سے مراد رکوع کے بعد رفع الیدین ہے جو رکوع اور سجدے کے درمیان ہوتا ہے۔ (۴)امام تسمیع و تحمید [سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا ولک الحمد] دونوں کہے گا۔