سنن النسائي - حدیث 876

كِتَابُ الْإِمَامَةِ الصَّلَاةُ قَبْلَ الْعَصْرِ وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ فِي ذَلِكَ حسن أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ قَالَ سَأَلْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّهَارِ قَبْلَ الْمَكْتُوبَةِ قَالَ مَنْ يُطِيقُ ذَلِكَ ثُمَّ أَخْبَرَنَا قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي حِينَ تَزِيغُ الشَّمْسُ رَكْعَتَيْنِ وَقَبْلَ نِصْفِ النَّهَارِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ يَجْعَلُ التَّسْلِيمَ فِي آخِرِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 876

کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل باب: عصر سے پہلے (نفل) نماز اور اس مسئلے کے متعلق ابو اسحاق سے ناقلین کے اختلاف کا ذکر عاصم بن ضمرہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت علی بن ابوطالب سے دن میں فرض نماز سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: تم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ پھر ہمیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھتے تھے جب سورج کچھ اونچا آجاتا تھا۔ اور نصف النہار سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے۔ سلام آخر میں پھیرتے۔ (دورکعت کے بعد سلام نہ پھیرتے۔)
تشریح : (۱)سورج کچھ اونچا آنے سے مراد ممکن ہے صلاۃ اشراق ہو اور ممکن ہے صلاۃ ضحیٰ اور صلاۃ الاوابین ہو۔ اس روایت میں صراحت ہے کہ چار رکعت کے آخر میں سلام کہتے تھے، نہ کہ دو رکعت کے بعد۔ اور یہ بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم۔ (۲)صلاۃ اشراق، صلاۃ ضحیٰ اور صلاۃ الاوابین (چاشت کی نماز) میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ اصل میں ان میں کوئی فرق نہیں۔ یہ ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔ جب یہ نفلی نماز کراہت کا وقت نکلتے ہی، جب کہ سورج نیزہ یا دو نیزوں کے برابر اونچا نکل آئے، پڑھی جائے تو اسے صلاۃ اشراق کہہ لیا جاتا ہے اور کچھ عرصہ ٹھہرنے کے بعد جو نوافل پڑھے جائیں انھیں حدیث میں صلاۃ الضحیٰ اور صلاۃ الاوابین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (مرعاۃ المفاتیح:۳؍۲۴۰، طبع قدیم، والمقول المقبول، ص:۲۸۸، وسلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی، رقم:۱۹۹۴) تاہم مغرب کے بعد چھ نوافل کو جو صلاۃ الاوابین قرار دیا جاتا ہے، وہ صحیح نہیں، اس لیے کہ وہ حدیث ضعیف ہے۔ واللہ اعلم۔ (۳)مذکورہ دونوں روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نصف النہار سے قبل صلاۃ اشراق اور ضحیٰ وغیرہ کے علاوہ مزید چار رکعت پڑھا کرتے تھے۔ (۱)سورج کچھ اونچا آنے سے مراد ممکن ہے صلاۃ اشراق ہو اور ممکن ہے صلاۃ ضحیٰ اور صلاۃ الاوابین ہو۔ اس روایت میں صراحت ہے کہ چار رکعت کے آخر میں سلام کہتے تھے، نہ کہ دو رکعت کے بعد۔ اور یہ بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم۔ (۲)صلاۃ اشراق، صلاۃ ضحیٰ اور صلاۃ الاوابین (چاشت کی نماز) میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ اصل میں ان میں کوئی فرق نہیں۔ یہ ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔ جب یہ نفلی نماز کراہت کا وقت نکلتے ہی، جب کہ سورج نیزہ یا دو نیزوں کے برابر اونچا نکل آئے، پڑھی جائے تو اسے صلاۃ اشراق کہہ لیا جاتا ہے اور کچھ عرصہ ٹھہرنے کے بعد جو نوافل پڑھے جائیں انھیں حدیث میں صلاۃ الضحیٰ اور صلاۃ الاوابین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (مرعاۃ المفاتیح:۳؍۲۴۰، طبع قدیم، والمقول المقبول، ص:۲۸۸، وسلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی، رقم:۱۹۹۴) تاہم مغرب کے بعد چھ نوافل کو جو صلاۃ الاوابین قرار دیا جاتا ہے، وہ صحیح نہیں، اس لیے کہ وہ حدیث ضعیف ہے۔ واللہ اعلم۔ (۳)مذکورہ دونوں روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نصف النہار سے قبل صلاۃ اشراق اور ضحیٰ وغیرہ کے علاوہ مزید چار رکعت پڑھا کرتے تھے۔