سنن النسائي - حدیث 874

كِتَابُ الْإِمَامَةِ الصَّلَاةُ بَعْدَ الظُّهْرِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مَالِكٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ فِي بَيْتِهِ وَبَعْدَ الْعِشَاءِ رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ لَا يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمْعَةِ حَتَّى يَنْصَرِفَ فَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 874

کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل باب: ظہر کے بعد نماز(سنتیں) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے دو رکعت اور بعد میں دو رکعت پڑھتے تھے۔ اور مغرب کے بعد گھر میں دو رکعت اور عشاء کے بعد دو رکعت پڑھتےتھے۔ اور جمعے کے بعد نماز نہیں پڑھتے تھے حتی کہ گھر جاکر دورکعت پڑھتے۔
تشریح : (۱)حدیث میں ظہر سے پہلے دو رکعت بھی منقول ہیں اور چار بھی، لہٰذا دونوں طرح جائز ہے، نیز جس روایت میں بارہ رکعت کی فضیلت کا ذکر ہے، اس میں ظہر سے پہلے چارہی بنتی ہیں۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث:۷۲۸، ۷۳۰) ممکن ہے کبھی کبھار دو بھی پڑھ لیتے ہوں۔ یا اگر پہلے دو پڑھتے ہوں تو بعد میں چار پڑھ لیتے ہوں کیونکہ بعض روایات میں ظہر کے بعد چار رکعت کا بھی ذکر ہے۔ گویا مجموعی طور پر بارہ ہونی چاہئیں۔ بہتر یہ ہے کہ جس جس طرح ان کا طریقہ احادیث میں مروی ہے، اس طرح ادا کی جائیں۔ (۲)جمعے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، الجمعۃ، حدیث:۸۸۲) اور ایک قولی روایت میں چار رکعت کا ذکر ہے کہ جسے جمعے کے بعد نماز پڑھنی ہو، وہ چار رکعت پڑھے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الجمعۃ، حدیث:۸۸۱) ان روایات کی رو سے بعض علماء نے چار کو مسجد سے اور دوکو گھر سے خاص کیا ہے۔ لیکن اس تخصیص کی ضرورت نہیں، مرضی پر موقوف ہے، چاہے چار پڑھے اور چاہے تو دو، لیکن چار کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ بعض علماء دونوں کو جمع کرنے کے قائل ہیں، یعنی مسجد میں چار پڑھے اور گھر میں جاکر مزید دو پڑھے۔ اگرچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے چھ رکعات کا عمل ملتا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طریقے کا ثبوت نہیں ملتا۔ یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ذاتی اجتہاد یا ان کی رائے تھی جس کی حیثیت یقیناً مرفوع حدیث کی نہیں، اس لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ بجائے دو اور چار کو جمع کرنے کے الگ الگ طور پر دونوں پر عمل کرلیا جائے، یعنی کسی جمعے دو پڑھ لیں اور کسی جمعے چار، ان شاء اللہ یہ سنت کے اقرب عمل ہوگا۔ واللہ اعلم۔ (۱)حدیث میں ظہر سے پہلے دو رکعت بھی منقول ہیں اور چار بھی، لہٰذا دونوں طرح جائز ہے، نیز جس روایت میں بارہ رکعت کی فضیلت کا ذکر ہے، اس میں ظہر سے پہلے چارہی بنتی ہیں۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث:۷۲۸، ۷۳۰) ممکن ہے کبھی کبھار دو بھی پڑھ لیتے ہوں۔ یا اگر پہلے دو پڑھتے ہوں تو بعد میں چار پڑھ لیتے ہوں کیونکہ بعض روایات میں ظہر کے بعد چار رکعت کا بھی ذکر ہے۔ گویا مجموعی طور پر بارہ ہونی چاہئیں۔ بہتر یہ ہے کہ جس جس طرح ان کا طریقہ احادیث میں مروی ہے، اس طرح ادا کی جائیں۔ (۲)جمعے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، الجمعۃ، حدیث:۸۸۲) اور ایک قولی روایت میں چار رکعت کا ذکر ہے کہ جسے جمعے کے بعد نماز پڑھنی ہو، وہ چار رکعت پڑھے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الجمعۃ، حدیث:۸۸۱) ان روایات کی رو سے بعض علماء نے چار کو مسجد سے اور دوکو گھر سے خاص کیا ہے۔ لیکن اس تخصیص کی ضرورت نہیں، مرضی پر موقوف ہے، چاہے چار پڑھے اور چاہے تو دو، لیکن چار کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ بعض علماء دونوں کو جمع کرنے کے قائل ہیں، یعنی مسجد میں چار پڑھے اور گھر میں جاکر مزید دو پڑھے۔ اگرچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے چھ رکعات کا عمل ملتا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طریقے کا ثبوت نہیں ملتا۔ یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ذاتی اجتہاد یا ان کی رائے تھی جس کی حیثیت یقیناً مرفوع حدیث کی نہیں، اس لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ بجائے دو اور چار کو جمع کرنے کے الگ الگ طور پر دونوں پر عمل کرلیا جائے، یعنی کسی جمعے دو پڑھ لیں اور کسی جمعے چار، ان شاء اللہ یہ سنت کے اقرب عمل ہوگا۔ واللہ اعلم۔