سنن النسائي - حدیث 870

كِتَابُ الْإِمَامَةِ الْمُنْفَرِدُ خَلْفَ الصَّفِّ صحيح أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنِي إِسْحَقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِنَا فَصَلَّيْتُ أَنَا وَيَتِيمٌ لَنَا خَلْفَهُ وَصَلَّتْ أُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 870

کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل باب: صف سے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز حضرت انس رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے۔ میں اور ہمارے ایک یتیم نے آپ کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھی اور (ہماری والدہ) حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ہمارے پیچھے نماز پڑھی۔
تشریح : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عورت ایک ہو تو وہ مردوں کے ساتھ کھڑی نہیں ہوگی بلکہ اکیلی کھڑی ہوکر جماعت کے ساتھ نماز پڑھے گی، لیکن اگر مرد صف کے پیچھے اکیلا ہو تو اس کے لیے نہی موجود ہے، الایہ کہ کوئی عذر ہوکیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو اسے نماز لوٹانے کا حکم دیا اور فرمایا: ’’صف کےپیچھے اکیلے مرد کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘ یہ روایت کتب حدیث میں موجود ہے اور حسن درجے کی ہے۔ دیکھیے: (سنن ابی داود، الصلاۃ، حدیث:۶۸۲، ومسنداحمد:۴؍۲۳) اس لیے امام احمد، اسحاق اور دیگر محدثین رحم اللہ علیہم نے صف کے پیچھے اکیلے کی نماز کو ناجائز اور قابل اعادہ قرار دیا ہے، بشرطیکہ وہ اگلی صف میں جگہ ہونے کے باوجود اکیلا کھڑا ہوا ہو جب کہ دیگر حضرات اسے جائز سمجھتے ہیں مگر یہ قول بلادلیل ہے۔ صف کے پیچھے اکیلا آدمی کیا کرے؟ اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے کہ اگر صف میں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ہے اور دوسرا نمازی بھی ساتھ کھڑا ہونے والا نہیں ہے تو پھر اکیلا شخص ہی صف کے پیچھے کھڑا ہوجائے۔ اس کی نماز ان شاء اللہ درست ہوگی۔ اگلی صف سے نمازی کھینچ کر اپنے ساتھ ملانے والی روایت ضعیف ہے، اس لیے اگلی صف سے آدمی نہیں کھینچنا چاہیے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (مجموع الفتاویٰ:۲۳؍۳۹۶) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عورت ایک ہو تو وہ مردوں کے ساتھ کھڑی نہیں ہوگی بلکہ اکیلی کھڑی ہوکر جماعت کے ساتھ نماز پڑھے گی، لیکن اگر مرد صف کے پیچھے اکیلا ہو تو اس کے لیے نہی موجود ہے، الایہ کہ کوئی عذر ہوکیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو اسے نماز لوٹانے کا حکم دیا اور فرمایا: ’’صف کےپیچھے اکیلے مرد کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘ یہ روایت کتب حدیث میں موجود ہے اور حسن درجے کی ہے۔ دیکھیے: (سنن ابی داود، الصلاۃ، حدیث:۶۸۲، ومسنداحمد:۴؍۲۳) اس لیے امام احمد، اسحاق اور دیگر محدثین رحم اللہ علیہم نے صف کے پیچھے اکیلے کی نماز کو ناجائز اور قابل اعادہ قرار دیا ہے، بشرطیکہ وہ اگلی صف میں جگہ ہونے کے باوجود اکیلا کھڑا ہوا ہو جب کہ دیگر حضرات اسے جائز سمجھتے ہیں مگر یہ قول بلادلیل ہے۔ صف کے پیچھے اکیلا آدمی کیا کرے؟ اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے کہ اگر صف میں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ہے اور دوسرا نمازی بھی ساتھ کھڑا ہونے والا نہیں ہے تو پھر اکیلا شخص ہی صف کے پیچھے کھڑا ہوجائے۔ اس کی نماز ان شاء اللہ درست ہوگی۔ اگلی صف سے نمازی کھینچ کر اپنے ساتھ ملانے والی روایت ضعیف ہے، اس لیے اگلی صف سے آدمی نہیں کھینچنا چاہیے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (مجموع الفتاویٰ:۲۳؍۳۹۶)