سنن النسائي - حدیث 863

كِتَابُ الْإِمَامَةِ الْإِسْرَاعُ إِلَى الصَّلَاةِ مِنْ غَيْرِ سَعْيٍ حسن الإسناد أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ مَنْبُوذٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ ذَهَبَ إِلَى بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ فَيَتَحَدَّثُ عِنْدَهُمْ حَتَّى يَنْحَدِرَ لِلْمَغْرِبِ قَالَ أَبُو رَافِعٍ فَبَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْرِعُ إِلَى الْمَغْرِبِ مَرَرْنَا بِالْبَقِيعِ فَقَالَ أُفٍّ لَكَ أُفٍّ لَكَ قَالَ فَكَبُرَ ذَلِكَ فِي ذَرْعِي فَاسْتَأْخَرْتُ وَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُرِيدُنِي فَقَالَ مَا لَكَ امْشِ فَقُلْتُ أَحْدَثْتَ حَدَثًا قَالَ مَا ذَاكَ قُلْتُ أَفَّفْتَ بِي قَالَ لَا وَلَكِنْ هَذَا فُلَانٌ بَعَثْتُهُ سَاعِيًا عَلَى بَنِي فُلَانٍ فَغَلَّ نَمِرَةً فَدُرِّعَ الْآنَ مِثْلُهَا مِنْ نَارٍ أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْبُوذٌ رَجُلٌ مِنْ آلِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ نَحْوَهُ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ مَنْبُوذٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ ذَهَبَ إِلَى بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ فَيَتَحَدَّثُ عِنْدَهُمْ حَتَّى يَنْحَدِرَ لِلْمَغْرِبِ قَالَ أَبُو رَافِعٍ فَبَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْرِعُ إِلَى الْمَغْرِبِ مَرَرْنَا بِالْبَقِيعِ فَقَالَ أُفٍّ لَكَ أُفٍّ لَكَ قَالَ فَكَبُرَ ذَلِكَ فِي ذَرْعِي فَاسْتَأْخَرْتُ وَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُرِيدُنِي فَقَالَ مَا لَكَ امْشِ فَقُلْتُ أَحْدَثْتَ حَدَثًا قَالَ مَا ذَاكَ قُلْتُ أَفَّفْتَ بِي قَالَ لَا وَلَكِنْ هَذَا فُلَانٌ بَعَثْتُهُ سَاعِيًا عَلَى بَنِي فُلَانٍ فَغَلَّ نَمِرَةً فَدُرِّعَ الْآنَ مِثْلُهَا مِنْ نَارٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 863

کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل باب: دوڑے بغیر تیزی کے ساتھ نماز کے لیے آنا حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز پڑھ لیتے تو بنوعبدالاشہل کے ہاں تشریف لے جاتے اور ان کے ہاں باتیں کرتے حتی کہ مغرب کے وقت واپس تشریف لاتے۔ ابورافع نے کہا: ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کے وقت جلدی اور تیزی سے آرہے تھے کہ ہم بقیع سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ’’افسوس تجھ پر! افسوس تجھ پر!۔‘‘ مجھے یہ الفاظ دل میں بہت تکلیف دہ محسوس ہوئے۔ میں پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے سمجھا کہ آپ مجھ سے مخاطب ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’پیچھے کیوں رہ گئے ہو؟ چلتے آؤ۔‘‘ میں نے کہا: مجھ سے کوئی قصور ہوگیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے کہا: آپ نے مجھ پر اظہار افسوس کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ (میری) اس بات کا سبب یہ ہے کہ میں نے ایک آدمی کو فلاں قبیلے کی زکاۃ لینے کے لیے بھیجا تھا۔ اس نے ایک چادر چھپالی۔ اب اسے اس جیسی آگ کی چادر پہنائی گئی ہے۔‘‘
تشریح : (۱)اگر وقت تنگ ہو یا جماعت کھڑی ہوچکی ہو تو نما زکے لیے ایسی تیزی سے چلا جاسکتا ہے جس سے مسجدونماز کی توہین ہو نہ انسانی وقار ہی کے خلاف ہو۔ (۲)فوت شدہ کو تصور میں حاضر کرکے اظہار افسوس و ملامت کے لیے اس سے خطاب کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح سلام و دعا میں اس سے خطاب کیا جاسکتا ہے، جیسے السلام علیکم یا اھل القبور وغیرہ، دعا ہے، بشرطیکہ میت کو حقیقتاً حاضر ناظر نہ سمجھے۔ (۱)اگر وقت تنگ ہو یا جماعت کھڑی ہوچکی ہو تو نما زکے لیے ایسی تیزی سے چلا جاسکتا ہے جس سے مسجدونماز کی توہین ہو نہ انسانی وقار ہی کے خلاف ہو۔ (۲)فوت شدہ کو تصور میں حاضر کرکے اظہار افسوس و ملامت کے لیے اس سے خطاب کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح سلام و دعا میں اس سے خطاب کیا جاسکتا ہے، جیسے السلام علیکم یا اھل القبور وغیرہ، دعا ہے، بشرطیکہ میت کو حقیقتاً حاضر ناظر نہ سمجھے۔