سنن النسائي - حدیث 860

كِتَابُ الْإِمَامَةِ إِعَادَةُ الصَّلَاةِ بَعْدَ ذَهَابِ وَقْتِهَا مَعَ الْجَمَاعَةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى وَمُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ صُدْرَانَ وَاللَّفْظُ لَهُ عَنْ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ بُدَيْلٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْعَالِيَةَ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَرَبَ فَخِذِي كَيْفَ أَنْتَ إِذَا بَقِيتَ فِي قَوْمٍ يُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا قَالَ مَا تَأْمُرُ قَالَ صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا ثُمَّ اذْهَبْ لِحَاجَتِكَ فَإِنْ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ وَأَنْتَ فِي الْمَسْجِدِ فَصَلِّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 860

کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل باب: (افضل) وقت گزر جانے کے بعد بھی نماز جماعت کے ساتھ دہرانا حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ران پر ہاتھ مارتے ہوئے مجھ سے فرمایا: ’’تمھارا کیا حال ہوگا جب تم ان لوگوں میں باقی رہ جاؤ گے جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کریں گے؟‘‘ میں نے کہا: آپ کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’نماز وقت پر پڑھ لیا کرنا، پھر اپنا کام کرنا، پھر اگر مسجد میں تمھاری موجودگی کے دوران میں جماعت شروع ہوجائے تو پڑھ لینا۔‘‘
تشریح : (۱)اس سے جماعت اور لزوم جماعت کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے، خواہ لوگ افضل اور مستحب وقت کے بعد بھی جماعت کروائیں، تب بھی ان کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے۔ ہاں! اپنی نماز وقت پر محفوظ کرلے۔ گویا کسی حال میں جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں کیونکہ جماعت سے علیحدہ ہونے اور تفردوشذوذ کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ بہت سے صحابہ نے اپنے اجتہاد پر جماعت کے عمل کو ترجیح دی ہے کیونکہ ایک میں غلطی کا امکان زیادہ ہے۔ جتنے اہل علم ہوں گے، اتنا ہی غلطی کا احتمال کم ہوجائےگا حتی کہ جب اجماع (تمام معتبر اہل علم کا اتفاق جس کے خلاف کچھ منقول نہ ہو) ہوجاتا ہے تو غلطی کا احتمال بالکلیہ ختم ہوجاتا ہے۔ (۲)ران پر ہاتھ مارنا تنبیہ کے لیے ہے کہ یہ بات تجھ سے متعلق ہے، اچھی طرح سمجھ لے۔ آپ نے اس قسم کے بہت سے مسائل میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو خصوصی ہدایات دیں۔ واقعتاً انھیں ایسے حالات سے سابقہ پیش آیا اور انھوں نے باوجود اختلاف کے جماعت کو نہیں چھوڑا۔ اگرچہ مفسدین اور امت مسلمہ کے بدخواہ انھیں اشتعال دلانے کی کوششیں کرتے رہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی بنا پر وہ محفوظ رہے۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔ (۱)اس سے جماعت اور لزوم جماعت کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے، خواہ لوگ افضل اور مستحب وقت کے بعد بھی جماعت کروائیں، تب بھی ان کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے۔ ہاں! اپنی نماز وقت پر محفوظ کرلے۔ گویا کسی حال میں جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں کیونکہ جماعت سے علیحدہ ہونے اور تفردوشذوذ کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ بہت سے صحابہ نے اپنے اجتہاد پر جماعت کے عمل کو ترجیح دی ہے کیونکہ ایک میں غلطی کا امکان زیادہ ہے۔ جتنے اہل علم ہوں گے، اتنا ہی غلطی کا احتمال کم ہوجائےگا حتی کہ جب اجماع (تمام معتبر اہل علم کا اتفاق جس کے خلاف کچھ منقول نہ ہو) ہوجاتا ہے تو غلطی کا احتمال بالکلیہ ختم ہوجاتا ہے۔ (۲)ران پر ہاتھ مارنا تنبیہ کے لیے ہے کہ یہ بات تجھ سے متعلق ہے، اچھی طرح سمجھ لے۔ آپ نے اس قسم کے بہت سے مسائل میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو خصوصی ہدایات دیں۔ واقعتاً انھیں ایسے حالات سے سابقہ پیش آیا اور انھوں نے باوجود اختلاف کے جماعت کو نہیں چھوڑا۔ اگرچہ مفسدین اور امت مسلمہ کے بدخواہ انھیں اشتعال دلانے کی کوششیں کرتے رہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی بنا پر وہ محفوظ رہے۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔