سنن النسائي - حدیث 859

كِتَابُ الْإِمَامَةِ إِعَادَةُ الْفَجْرِ مَعَ الْجَمَاعَةِ لِمَنْ صَلَّى وَحْدَهُ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى وَمُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ صُدْرَانَ وَاللَّفْظُ لَهُ عَنْ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ بُدَيْلٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْعَالِيَةَ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَرَبَ فَخِذِي كَيْفَ أَنْتَ إِذَا بَقِيتَ فِي قَوْمٍ يُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا قَالَ مَا تَأْمُرُ قَالَ صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا ثُمَّ اذْهَبْ لِحَاجَتِكَ فَإِنْ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ وَأَنْتَ فِي الْمَسْجِدِ فَصَلِّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 859

کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل باب: جو آدمی فجر کی نماز اکیلا پڑھ چکا ہو، جماعت مل جانے کی صورت میں وہ دوبارہ پڑھے حضرت یزید بن اسود عامری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے فجر کی نماز مسجد خیف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ نے نماز پوری فرمالی تو آپ نے لوگوں (نمازیوں) کے آخر میں دو آدمی دیکھے جنھوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’انھیں میرے پاس لاؤ۔‘‘ انھیں آپ کے پاس لایا گیا تو ان کے کندھوں کا گوشت کانپ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’تمھیں ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟‘‘ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ایسے مت کرو۔ جب تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکے ہو، پھر تم مسجد میں آؤ اور جماعت پاؤ تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لو۔ وہ (بعد والی) تمھارے لیے نفل ہوجائے گی۔‘‘
تشریح : (۱)مسجد خیف منیٰ میں ہے اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ منسوخ ہونے کا احتمال نہیں۔ (۲)’’کانپ رہا تھا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں قدرتی طور پر رعب اور ہیبت تھی۔ جو نیا آدمی آپ کو دیکھتا تھا یا جو کبھی کبھار دیکھتا تھا، مرعوب ہوجاتا تھا۔ انھیں تو بلایا گیا تھا بلکہ پکڑ کر لایا گیا تھا، لہٰذا مرعوب ہونے کے علاوہ ان کا خوف زدہ ہونا قرین قیاس تھا۔ (۳) اس روایت میں صریح طور پر فجر کی نماز کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اکیلا رہنے والا جماعت پائے تو دوبارہ پڑھے، لہٰذا اس صریح روایت کو چھوڑ کر ایک عام روایت سے استدلال کرنا خلاف انصاف ہے۔ (۴)’’نفل ہوجائے گی۔‘‘ کون سی؟ اسی میں اختلاف ہے، اسی لیے محققین نے کہا یہ اللہ کے سپرد ہے جسے چاہے فرض بنائے جسے چاہے نفل۔ لیکن ظاہر ہے کہ پہلی نماز جب پڑھی تھی تو وہ فرض تھی اور فرض ہی کی نیت سے پڑھی تھی، اس لیے دوسری نماز ہی نفل ہونی چاہیے۔ احادیث کی روشنی میں اسی موقف کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ (۱)مسجد خیف منیٰ میں ہے اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ منسوخ ہونے کا احتمال نہیں۔ (۲)’’کانپ رہا تھا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں قدرتی طور پر رعب اور ہیبت تھی۔ جو نیا آدمی آپ کو دیکھتا تھا یا جو کبھی کبھار دیکھتا تھا، مرعوب ہوجاتا تھا۔ انھیں تو بلایا گیا تھا بلکہ پکڑ کر لایا گیا تھا، لہٰذا مرعوب ہونے کے علاوہ ان کا خوف زدہ ہونا قرین قیاس تھا۔ (۳) اس روایت میں صریح طور پر فجر کی نماز کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اکیلا رہنے والا جماعت پائے تو دوبارہ پڑھے، لہٰذا اس صریح روایت کو چھوڑ کر ایک عام روایت سے استدلال کرنا خلاف انصاف ہے۔ (۴)’’نفل ہوجائے گی۔‘‘ کون سی؟ اسی میں اختلاف ہے، اسی لیے محققین نے کہا یہ اللہ کے سپرد ہے جسے چاہے فرض بنائے جسے چاہے نفل۔ لیکن ظاہر ہے کہ پہلی نماز جب پڑھی تھی تو وہ فرض تھی اور فرض ہی کی نیت سے پڑھی تھی، اس لیے دوسری نماز ہی نفل ہونی چاہیے۔ احادیث کی روشنی میں اسی موقف کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔