سنن النسائي - حدیث 856

كِتَابُ الْإِمَامَةِ حَدُّ إِدْرَاكِ الْجَمَاعَةِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ ابْنِ طَحْلَاءَ عَنْ مُحْصِنِ بْنِ عَلِيٍّ الْفِهْرِيِّ عَنْ عَوْفِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ خَرَجَ عَامِدًا إِلَى الْمَسْجِدِ فَوَجَدَ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ مِثْلَ أَجْرِ مَنْ حَضَرَهَا وَلَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 856

کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل باب: جماعت (کا ثواب) پانے کی حد حضر ت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے وضو کیا اور اچھا وضو کیا، پھر جماعت کی نیت سے مسجد کی طرف گیا مگر لوگوں کو اس حال میں پایا کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جماعت میں حاضر ہونے والے جیسا ثواب لکھ دیتا ہے لیکن اس سے ان کے ثواب میں کمی نہیں آتی۔‘‘
تشریح : اس شخص کی نیت جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے ہی کی تھی، پھر اس نے کوئی کوتاہی بھی نہیں کی بلکہ اپنی پوری کوشش کی لیکن پھر بھی جماعت نہ مل سکی۔ اس نے افسوس کیا تو اس کی نیت اور کوشش کے لحاظ سے اسے جماعت کا ثواب ملے گا، بشرطیکہ وہ جماعت کا پابند ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اس سے مراد وہ شخص نہیں جو نماز باجماعت میں سستی کا عادی ہے یا زیادہ پروا نہیں کرتا۔ مل جائے تو ٹھیک، نہ ملے تو کوئی افسوس نہیں۔ ایسے شخص کے لیے کم از کم ایک رکعت باجماعت پڑھنےکی صورت میں جماعت کا ثواب ملے گا، کم میں نہیں۔ اور یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، مواقیت الصلاۃ، حدیث:۵۸۰، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث:۶۰۷) اس شخص کی نیت جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے ہی کی تھی، پھر اس نے کوئی کوتاہی بھی نہیں کی بلکہ اپنی پوری کوشش کی لیکن پھر بھی جماعت نہ مل سکی۔ اس نے افسوس کیا تو اس کی نیت اور کوشش کے لحاظ سے اسے جماعت کا ثواب ملے گا، بشرطیکہ وہ جماعت کا پابند ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اس سے مراد وہ شخص نہیں جو نماز باجماعت میں سستی کا عادی ہے یا زیادہ پروا نہیں کرتا۔ مل جائے تو ٹھیک، نہ ملے تو کوئی افسوس نہیں۔ ایسے شخص کے لیے کم از کم ایک رکعت باجماعت پڑھنےکی صورت میں جماعت کا ثواب ملے گا، کم میں نہیں۔ اور یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، مواقیت الصلاۃ، حدیث:۵۸۰، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث:۶۰۷)