سنن النسائي - حدیث 851

كِتَابُ الْإِمَامَةِ الْمُحَافَظَةُ عَلَى الصَّلَوَاتِ حَيْثُ يُنَادَى بِهِنَّ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَصَمِّ عَنْ عَمِّهِ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ جَاءَ أَعْمَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ يَقُودُنِي إِلَى الصَّلَاةِ فَسَأَلَهُ أَنْ يُرَخِّصَ لَهُ أَنْ يُصَلِّيَ فِي بَيْتِهِ فَأَذِنَ لَهُ فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ قَالَ لَهُ أَتَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَجِبْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 851

کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل باب: نمازوں کی اس جگہ پابندی کرنا جہاں ان کی اذان کہی جائے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نابینا آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: مجھے کوئی ہاتھ پکڑ کر چلانے والا نہیں جو مجھے مسجد میں نماز کے لیے لائے اور اس نے آپ سے گزارش کی کہ اسے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ آپ نے اسے اجازت دے دی۔ جب وہ واپس جانے کے لیے مڑا تو آپ نے فرمایا: ’’تم اذان سنتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ’’پھر (نماز کےلیے) ضرور آؤ۔‘‘
تشریح : یہ روایت بھی جماعت کو فرض کہنے والوں کی دلیل ہے ورنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے سہارا نابینے صحابی کو رخصت دے دیتے۔ پہلے آپ نے رخصت دے دی دی تھی، پھر معلوم ہوا کہ وہ مسجد سے زیادہ دور نہیں رہتا، وہاں نماز کی اذان سنائی دیتی ہے، اتنے قریب سے وہ اکیلا بھی آسکتا ہے۔ ویسے بھی جماعت کے وقت اتنے فاصلے سے آنے والے بہت ہوتے ہیں، کوئی نہ کوئی پکڑ کر لے آئے گا۔ ایسے لگتا ہے کہ پہلے آپ نے سمجھا ہوگا کہ یہ آدمی دور رہتا ہے، ساتھی کوئی نہیں، اکیلا نہیں آسکے گا۔ یہ کوئی اجتہاد کی تبدیلی نہیں، نہ اس کے لیے کسی نئی وحی کا اترنا ضروری ہے بلکہ یہ فتویٰ سائل کے حالات پر موقوف ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ حاضر ی کا حکم استحباب کے لیے ہے، وجوب کے لیے نہیں، لیکن مندرجہ بالا توجیہ کی صورت میں یہ بات کوئی قوی نہیں۔ یہ روایت بھی جماعت کو فرض کہنے والوں کی دلیل ہے ورنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے سہارا نابینے صحابی کو رخصت دے دیتے۔ پہلے آپ نے رخصت دے دی دی تھی، پھر معلوم ہوا کہ وہ مسجد سے زیادہ دور نہیں رہتا، وہاں نماز کی اذان سنائی دیتی ہے، اتنے قریب سے وہ اکیلا بھی آسکتا ہے۔ ویسے بھی جماعت کے وقت اتنے فاصلے سے آنے والے بہت ہوتے ہیں، کوئی نہ کوئی پکڑ کر لے آئے گا۔ ایسے لگتا ہے کہ پہلے آپ نے سمجھا ہوگا کہ یہ آدمی دور رہتا ہے، ساتھی کوئی نہیں، اکیلا نہیں آسکے گا۔ یہ کوئی اجتہاد کی تبدیلی نہیں، نہ اس کے لیے کسی نئی وحی کا اترنا ضروری ہے بلکہ یہ فتویٰ سائل کے حالات پر موقوف ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ حاضر ی کا حکم استحباب کے لیے ہے، وجوب کے لیے نہیں، لیکن مندرجہ بالا توجیہ کی صورت میں یہ بات کوئی قوی نہیں۔