سنن النسائي - حدیث 848

كِتَابُ الْإِمَامَةِ التَّشْدِيدُ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ حسن أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ زَائِدَةَ بْنِ قُدَامَةَ قَالَ حَدَّثَنَا السَّائِبُ بْنُ حُبَيْشٍ الْكَلَاعِيُّ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمُرِيِّ قَالَ قَالَ لِي أَبُو الدَّرْدَاءِ أَيْنَ مَسْكَنُكَ قُلْتُ فِي قَرْيَةٍ دُوَيْنَ حِمْصَ فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ ثَلَاثَةٍ فِي قَرْيَةٍ وَلَا بَدْوٍ لَا تُقَامُ فِيهِمْ الصَّلَاةُ إِلَّا قَدْ اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمْ الشَّيْطَانُ فَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّمَا يَأْكُلُ الذِّئْبُ الْقَاصِيَةَ قَالَ السَّائِبُ يَعْنِي بِالْجَمَاعَةِ الْجَمَاعَةَ فِي الصَّلَاةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 848

کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل باب: جماعت چھوڑ دینے پر سختی معدان بن ابو طلحہ بعمری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: تیری رہائش گاہ کہاں ہے؟ میں نے کہا: حمص کے قریب ایک بستی میں۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’کسی بستی یا صحرا میں جو بھی تین آدمی اکٹھے رہتے ہوں اور ان میں جماعت قائم نہ کی جاتی ہو تو یقین رکھو کہ ان پر شیطان غالب آچکا ہے۔ جماعت قائم رکھو کیونکہ بھیڑیا اسی بھیڑ بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑے سے دور رہتی ہے۔‘‘ سائب راوی نے کہا کہ یہاں جماعت سے نماز کی جماعت مراد ہے۔
تشریح : انسان مدنی الطبع ہے، اکیلا رہنا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ وہ اپنی تمام ضروریات اکیلا پوری نہیں کرسکتا۔ اکیلے سے افزائش نسل بھی نہیں ہوسکتی، بالکل اسی رطح دینی زندگی بھی اجتماعیت کے بغیر ممکن نہیں۔ نماز، روزہ، حج اور زکاۃ جیسے اہم اور بنیادی ارکان اسلام کی ادائیگی بھی اکیلے کے لیے کماحقہ ممکن نہیں، اس لیے ضروری ہے کہ جہاں بھی ایک سے زائد مسلمان رہتے ہوں، وہ مل جل کر رہیں۔ اپنے میں سے افضل شخص کو امیر اور امام بنائیں۔ اس کے پیچھے نماز پڑھیں۔ اس کی ہدایات کے تحت زندگی بسر کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ دکھ سکھ میں شریک ہوں۔ نظم و ضبط کے ساتھ کام کریں۔ نماز چونکہ اسلامی زندگی کا لازمی اور دائمی جز ہے بلکہ جزو اعظم ہے، لہٰذا اس میں اجتماعیت ضروری ہے۔ نماز باجماعت پڑھنا لازمی ہے۔ اکیلا آدمی آسانی سے شیطان کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جب کہ جماعت میں بندھا ہوا شخص محفوظ رہتا ہے جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیوڑ اور بھیڑیے کی مثال بیان فرمائی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اجماع امت کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے اور بلاوجہ جمہور اہل علم سے جدا نہیں ہونا چاہیے کیوکہ تفرد اور شذوذ (اکیلا ہو جانا) انسان کو شیطان کے قریب کر دیتا ہے بلکہ دراصل یہ شیطان داؤ ہے۔ صحابہ و تابعین کی جماعت کی پیروی کرنی چاہیے اور اس سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ انسان مدنی الطبع ہے، اکیلا رہنا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ وہ اپنی تمام ضروریات اکیلا پوری نہیں کرسکتا۔ اکیلے سے افزائش نسل بھی نہیں ہوسکتی، بالکل اسی رطح دینی زندگی بھی اجتماعیت کے بغیر ممکن نہیں۔ نماز، روزہ، حج اور زکاۃ جیسے اہم اور بنیادی ارکان اسلام کی ادائیگی بھی اکیلے کے لیے کماحقہ ممکن نہیں، اس لیے ضروری ہے کہ جہاں بھی ایک سے زائد مسلمان رہتے ہوں، وہ مل جل کر رہیں۔ اپنے میں سے افضل شخص کو امیر اور امام بنائیں۔ اس کے پیچھے نماز پڑھیں۔ اس کی ہدایات کے تحت زندگی بسر کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ دکھ سکھ میں شریک ہوں۔ نظم و ضبط کے ساتھ کام کریں۔ نماز چونکہ اسلامی زندگی کا لازمی اور دائمی جز ہے بلکہ جزو اعظم ہے، لہٰذا اس میں اجتماعیت ضروری ہے۔ نماز باجماعت پڑھنا لازمی ہے۔ اکیلا آدمی آسانی سے شیطان کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جب کہ جماعت میں بندھا ہوا شخص محفوظ رہتا ہے جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیوڑ اور بھیڑیے کی مثال بیان فرمائی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اجماع امت کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے اور بلاوجہ جمہور اہل علم سے جدا نہیں ہونا چاہیے کیوکہ تفرد اور شذوذ (اکیلا ہو جانا) انسان کو شیطان کے قریب کر دیتا ہے بلکہ دراصل یہ شیطان داؤ ہے۔ صحابہ و تابعین کی جماعت کی پیروی کرنی چاہیے اور اس سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔