كِتَابُ الْإِمَامَةِ الْجَمَاعَةُ لِلنَّافِلَةِ صحيح أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَحْمُودٍ عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ السُّيُولَ لَتَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَ مَسْجِدِ قَوْمِي فَأُحِبُّ أَنْ تَأْتِيَنِي فَتُصَلِّيَ فِي مَكَانٍ مِنْ بَيْتِي أَتَّخِذُهُ مَسْجِدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَنَفْعَلُ فَلَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَيْنَ تُرِيدُ فَأَشَرْتُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنْ الْبَيْتِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ
کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل
باب: نفل نماز کے لیے جماعت کرانا
حضرت عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری قوم کی مسجد اور میرے (گھر کے) درمیان بسا اوقات بارشی پانی حائل ہو جاتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے پاس تشریف لائیں اور میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھیں جسے میں نماز کی جگہ بنالوں۔ آپ نے فرمایا: ’’ہم ایسے کریں گے۔‘‘ جب (اگلے دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو پوچھا: ’’تم کس جگہ چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟‘‘ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے۔ ہم نے آپ کے پیچھے صفیں باندھیں تو آپ نے ہمیں دو رکعتیں (نفل) پڑھائیں۔
تشریح :
نفل نماز کی جماعت اتفاقاً ہوجائے تو کوئی حرج نہیں لیکن لوگوں کو دعوت دے کر نہ بلایا جائے، البتہ مخصوص نمازیں اس سے مستثنیٰ ہیں، مثلاً: نماز کسوف، نماز استسقاء، نماز عیدین اور نماز تراویح وغیرہ۔ ان کے لیے لوگوں کو بلانا جائز ہے کیونکہ ان کا سنت سے ثبوت ملتا ہے مگر ان کے لیے اذان و اقامت درست نہیں۔
نفل نماز کی جماعت اتفاقاً ہوجائے تو کوئی حرج نہیں لیکن لوگوں کو دعوت دے کر نہ بلایا جائے، البتہ مخصوص نمازیں اس سے مستثنیٰ ہیں، مثلاً: نماز کسوف، نماز استسقاء، نماز عیدین اور نماز تراویح وغیرہ۔ ان کے لیے لوگوں کو بلانا جائز ہے کیونکہ ان کا سنت سے ثبوت ملتا ہے مگر ان کے لیے اذان و اقامت درست نہیں۔