سنن النسائي - حدیث 84

صِفَةُ الْوُضُوءِ الْمَضْمَضَةُ وَالِاسْتِنْشَاقُ صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانَ قَالَ رَأَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَوَضَّأَ فَأَفْرَغَ عَلَى يَدَيْهِ ثَلَاثًا فَغَسَلَهُمَا ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا ثُمَّ غَسَلَ يَدَيْهِ الْيُمْنَى إِلَى الْمِرْفَقِ ثَلَاثًا ثُمَّ الْيُسْرَى مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ ثُمَّ غَسَلَ قَدَمَهُ الْيُمْنَى ثَلَاثًا ثُمَّ الْيُسْرَى مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِي ثُمَّ قَالَ مَنْ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِي هَذَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا يُحَدِّثُ نَفْسَهُ فِيهِمَا بِشَيْءٍ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 84

کتاب: وضو کا طریقہ کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا حضرت حمران بن ابان سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیکھا۔ آپ نے وضو کیا اور اپنے ہاتھوں پر تین دفعہ پانی ڈالا اور انھیں دھویا۔ پھر آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ پھر اپنا چہرہ تین مرتبہ دھویا۔ پھر اپنا دایاں بازو کہنی تک تین دفعہ دھویا۔ پھر بایاں بازو بھی اسی طرح دھویا۔ پھر اپنے سر کا مسح کیا۔ پھر اپنا دایاں پاؤں تین دفعہ دھویا اور پھر بایاں پاؤں بھی اسی طرح دھویا۔ پھر کہنے لگے: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے میرے وضو کی طرح وضو کیا، پھر آپ نے فرمایا: ’’جو شخص میرے اس وضو کی طرح وضو کرے، پھر دو رکعتیں اس طرح ادا کرے کہ اپنے دل میں کوئی بات نہ کرے، اس کے گزشتہ سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
تشریح : (۱) مضمضہ اور استنشاق کا ذکر اگرچہ قرآن مجید میں صراحتاً نہیں ہے، مگر احادیث میں ان کا بکثرت ذکر آیا ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: [إذا توضا أحد کم فلیجعل في أنفہ ماء ثم لینشر] ’’جب تم میں سے کوئی ایک وضو کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی ناک میں پانی ڈالے، پھر اسے جھاڑے۔‘‘ (سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث ۱۴۰) مزید آپ نے فرمایا: [بالغ في الاستنشاق الا ان تکون صائما] ’’ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کر الا یہ کہ تو روزے سے ہو۔‘‘ ان احادیث میں ناک میں پانی چڑھانے کا حکم ہے اور حکم وجوب کا تقاضا کرتا ہے، نیز کلی کے متعلق فرمایا: [اذا توضات فمضمض] ’’جب تو وضو کرے تو کلی کر۔‘‘ اس حدیث سے یہ بھی پتا چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں کلی کرنے کا حکم دیا ہے جس سے کلی کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں (فاغسلوا وجوھکم) چہرا دھونے کا حکم ہے جبکہ چہرے میں ناک اور منہ بھی شامل ہے، لہٰذا ان کا حکم بھی وجوب کا ہوگا۔ الگ ناموں کی وجہ سے اصل مسمی سے خارج نہ ہوں گے، جیسے رخسار اور آنکھیں چہرے سے خارج نہیں ہوتے۔ مضمضمہ اور استشاق کے وجوب کی مؤید یہ دلیل بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی ان کا التزام کیا ہے۔ آپ سے یا صحابۂ کرام  سے کہیں یہ نہیں ملتا کہ کبھی آپ نے انھیں چھوڑا ہو، نیز آپ کا وضو فرمانا حکم وضو والی آیت کی عملی تفسیر تھا، اس لیے ان کا حکم بھی وجوب ہی کا ہوگا۔ جن علماء نے ’’عشر من السنن‘‘ کی بنا پر مضمضہ اور اشتنشاق کو سنت قرار دیا ہے کیونکہ اس حدیث میں مضمضہ اور استنشاق کا بھی ذکر ہے، اسی حدیث میں باقی امور فطرت کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ کیونکہ ان امور فطرت کو بجا لانا ضروری ہے، جیسے زیر ناف کے بالوں کا مونڈنا اور بغلوں کی صفائی وغیرہ تو کیا انھیں چھوڑا بھی جا سکتا ہے؟ تو اگر سنت سے ان کی مراد اصطلاحی سنت جو فقہاء کے ہاں واجب کے مقابلے میں ہوتی ہے تو یہ بات صراحتاً مذکورہ دلائل کی روشنی میں مرجوح ہے۔ بہرحال وضو اور غسل میں دونوں کا بجا لانا ضروری ہے اگر۔ انھیں وضو میں ترک کر دیا جائے تو وضو باطل ہوگا اور دوبارہ وضو کرنا چاہیے۔ یہ موقف جلیل ائمہ کی ایک جماعت کا ہے، جیسے امام احمد، اسحاق اور عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ وغیرہ۔ دیکھیے (جامع الترمذي، الطھارۃ، حدیث: ۲۷) (۲) فطری طور پر بھی مضمضمہ اور استنشاق ضروری ہیں کیونکہ نماز کے تمام اور ادواذکار کی ادائیگی منہ اور ناک کے ذریعے سے ہی ہوتی ہے۔ اگر یہ دو عضو صاف نہ کیے گئے تو نہ صرف یہ کہ ادائیگی میں خرابی واقع ہوگی بلکہ قریبی نمازیوں اور فرشتوں کو بدبو سے تکلیف بھی ہوگی۔ (۳) ’’اس کے گزشتہ سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ اس سے مراد قابل معافی گناہ ہیں، مثلاً: صغائر، جبکہ کبائر کی معافی کے لیے توبہ و استغفار ضروری ہے۔ (۴) وضو کے بعد دو رکعتیں پڑھنا مستحب ہے۔ اور یہ جس وقت بھی وضو کیا جائے اس وقت پڑھی جا سکتی ہے۔ (۵) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وضو کرتے ہوئے ترتیب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ (۱) مضمضہ اور استنشاق کا ذکر اگرچہ قرآن مجید میں صراحتاً نہیں ہے، مگر احادیث میں ان کا بکثرت ذکر آیا ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: [إذا توضا أحد کم فلیجعل في أنفہ ماء ثم لینشر] ’’جب تم میں سے کوئی ایک وضو کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی ناک میں پانی ڈالے، پھر اسے جھاڑے۔‘‘ (سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث ۱۴۰) مزید آپ نے فرمایا: [بالغ في الاستنشاق الا ان تکون صائما] ’’ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کر الا یہ کہ تو روزے سے ہو۔‘‘ ان احادیث میں ناک میں پانی چڑھانے کا حکم ہے اور حکم وجوب کا تقاضا کرتا ہے، نیز کلی کے متعلق فرمایا: [اذا توضات فمضمض] ’’جب تو وضو کرے تو کلی کر۔‘‘ اس حدیث سے یہ بھی پتا چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں کلی کرنے کا حکم دیا ہے جس سے کلی کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں (فاغسلوا وجوھکم) چہرا دھونے کا حکم ہے جبکہ چہرے میں ناک اور منہ بھی شامل ہے، لہٰذا ان کا حکم بھی وجوب کا ہوگا۔ الگ ناموں کی وجہ سے اصل مسمی سے خارج نہ ہوں گے، جیسے رخسار اور آنکھیں چہرے سے خارج نہیں ہوتے۔ مضمضمہ اور استشاق کے وجوب کی مؤید یہ دلیل بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی ان کا التزام کیا ہے۔ آپ سے یا صحابۂ کرام  سے کہیں یہ نہیں ملتا کہ کبھی آپ نے انھیں چھوڑا ہو، نیز آپ کا وضو فرمانا حکم وضو والی آیت کی عملی تفسیر تھا، اس لیے ان کا حکم بھی وجوب ہی کا ہوگا۔ جن علماء نے ’’عشر من السنن‘‘ کی بنا پر مضمضہ اور اشتنشاق کو سنت قرار دیا ہے کیونکہ اس حدیث میں مضمضہ اور استنشاق کا بھی ذکر ہے، اسی حدیث میں باقی امور فطرت کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ کیونکہ ان امور فطرت کو بجا لانا ضروری ہے، جیسے زیر ناف کے بالوں کا مونڈنا اور بغلوں کی صفائی وغیرہ تو کیا انھیں چھوڑا بھی جا سکتا ہے؟ تو اگر سنت سے ان کی مراد اصطلاحی سنت جو فقہاء کے ہاں واجب کے مقابلے میں ہوتی ہے تو یہ بات صراحتاً مذکورہ دلائل کی روشنی میں مرجوح ہے۔ بہرحال وضو اور غسل میں دونوں کا بجا لانا ضروری ہے اگر۔ انھیں وضو میں ترک کر دیا جائے تو وضو باطل ہوگا اور دوبارہ وضو کرنا چاہیے۔ یہ موقف جلیل ائمہ کی ایک جماعت کا ہے، جیسے امام احمد، اسحاق اور عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ وغیرہ۔ دیکھیے (جامع الترمذي، الطھارۃ، حدیث: ۲۷) (۲) فطری طور پر بھی مضمضمہ اور استنشاق ضروری ہیں کیونکہ نماز کے تمام اور ادواذکار کی ادائیگی منہ اور ناک کے ذریعے سے ہی ہوتی ہے۔ اگر یہ دو عضو صاف نہ کیے گئے تو نہ صرف یہ کہ ادائیگی میں خرابی واقع ہوگی بلکہ قریبی نمازیوں اور فرشتوں کو بدبو سے تکلیف بھی ہوگی۔ (۳) ’’اس کے گزشتہ سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ اس سے مراد قابل معافی گناہ ہیں، مثلاً: صغائر، جبکہ کبائر کی معافی کے لیے توبہ و استغفار ضروری ہے۔ (۴) وضو کے بعد دو رکعتیں پڑھنا مستحب ہے۔ اور یہ جس وقت بھی وضو کیا جائے اس وقت پڑھی جا سکتی ہے۔ (۵) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وضو کرتے ہوئے ترتیب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔