سنن النسائي - حدیث 835

كِتَابُ الْإِمَامَةِ الِائْتِمَامُ بِالْإِمَامِ يُصَلِّي قَاعِدًا صحيح أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ فَقُلْنَا لَا وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ قُلْنَا لَا هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ مِثْلَ قَوْلِهِ قَالَتْ وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْ صَلِّ بِالنَّاسِ فَجَاءَهُ الرَّسُولُ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلًا رَقِيقًا فَقَالَ يَا عُمَرُ صَلِّ بِالنَّاسِ فَقَالَ أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الْأَيَّامَ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً فَجَاءَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَتَأَخَّرَ وَأَمَرَهُمَا فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِهِ فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَاعِدًا فَدَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ أَلَا أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ فَحَدَّثْتُهُ فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ أَسَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ قُلْتُ لَا قَالَ هُوَ عَلِيٌّ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 835

کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل باب: بیٹھ کر نماز پڑھنے والے امام کی اقتدا کرنا عبیداللہ بن عبداللہ سے منقول ہے کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کے بارے میں بیان نہیں فرماتیں؟ وہ فرمانے لگیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیمار ہوگئے تو فرمانے لگے: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے کہا:نہیں وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میرے لیے ٹب میں پانی ڈالو۔ ہم نے تعمیل کی۔ آپ نے غسل فرمایا (تاکہ بخار کی حدت کم ہو۔) پھر آپ نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو بے ہوش ہوگئے۔ پھر ہوش میں آئے تو فرمانے لگے: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! نہیں بلکہ وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میرے لیے ٹب میں پانی رکھو۔ ہم نے تعمیل کی۔ آپ نے پھر غسل کیا اور اٹھنے کا ارادہ کیا مگر دوبارہ بے ہوش ہوگئے۔پھر تیسری دفعہ بھی ایسے ہی فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے کہا: لوگ مسج میں بیٹھے عشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیج دیا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ قاصد ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ لوگوں کو نماز پڑھاؤ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی تھے۔ کہنے لگے: اے عمر! تم نماز پڑھاؤ۔ انھوں نے کہا: آپ ہی اس اعزاز (امامت) کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔ پھر ان دنوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نمازیں پڑھائیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں افاقہ محسوس کیا تو آپ نماز ظاہر کے لیے دو آدمیوں کے سہارے تشریف لائے۔ ان دو آدمیوں میں سے ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے۔ جب آپ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اشارہ فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹیں۔ اور آپ نے (لانے والے) ان دو آدمیوں کو حکم دیا تو انھوں نے آپ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بائیں جانب بٹھا دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہے۔ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھتے رہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھتے رہے۔ عبید اللہ نے کہا: میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور میں نے کہا: کیا میں آپ پر وہ روایت پیش نہ کروں جو مجھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کے بارے میں بیان کی ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ میں نے پوری روایت بیان کی۔ انھوں نے کسی بھی لفظ کا انکار نہیں کیا مگر انھوں نے کہا: کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تجھے اس آدمی کا نام بتایا جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ (آپ کو سہارا دینے والے) تھے؟ میں نے کہا: نہیں۔ انھوں نے فرمایا: وہ حضرت علی کرم اللہ وجہ تھے۔
تشریح : (۱)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تپ محرقہ تھی اور شدید تھی اس لیے باوجود تین مرتبہ غسل فرمانے کے بخار کم نہ ہوا اور آپ اٹھ نہ سکے بلکہ بار بار بے ہوش ہوتے رہے۔ (۲) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لیے اس لیے کہا کہ ان کا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد جماعت قائم کروانا ہے نہ کہ مجھے مقرر فرمانا لہٰذا کوئی جماعت کروا دے۔ انھیں اس مکالمے کا علم نہ تھا جو آپ کے اور آپ کی ازواج مطہرات کے درمیان ہوا تھا۔ (۳) وہ حضرت علی تھے۔ حرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کا نام نہیں لیا کیونکہوہ متعین نہیں تھے بلکہ ایک طرف تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ ہی رہے دوسری طرف بدلتے رہ کبھی حضرت علی کبھی حضرت بلال اور کبھی حضرت اسامہ رضی اللہ عنھم جیسا کہ مختلف روایات سے پتہ چلتا ہے۔ (مزید فوائد کے لیے دیکھیے حدیث: ۸۳۳ ۸۳۴) (۱)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تپ محرقہ تھی اور شدید تھی اس لیے باوجود تین مرتبہ غسل فرمانے کے بخار کم نہ ہوا اور آپ اٹھ نہ سکے بلکہ بار بار بے ہوش ہوتے رہے۔ (۲) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لیے اس لیے کہا کہ ان کا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد جماعت قائم کروانا ہے نہ کہ مجھے مقرر فرمانا لہٰذا کوئی جماعت کروا دے۔ انھیں اس مکالمے کا علم نہ تھا جو آپ کے اور آپ کی ازواج مطہرات کے درمیان ہوا تھا۔ (۳) وہ حضرت علی تھے۔ حرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کا نام نہیں لیا کیونکہوہ متعین نہیں تھے بلکہ ایک طرف تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ ہی رہے دوسری طرف بدلتے رہ کبھی حضرت علی کبھی حضرت بلال اور کبھی حضرت اسامہ رضی اللہ عنھم جیسا کہ مختلف روایات سے پتہ چلتا ہے۔ (مزید فوائد کے لیے دیکھیے حدیث: ۸۳۳ ۸۳۴)