سنن النسائي - حدیث 834

كِتَابُ الْإِمَامَةِ الِائْتِمَامُ بِالْإِمَامِ يُصَلِّي قَاعِدًا صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ بِلَالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ فَقَالَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ وَإِنَّهُ مَتَى يَقُومُ فِي مَقَامِكَ لَا يُسْمِعُ النَّاسَ فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ فَقَالَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ فَقَالَتْ لَهُ فَقَالَ إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ قَالَتْ فَأَمَرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً قَالَتْ فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ فِي الْأَرْضِ فَلَمَّا دَخَلَ الْمَسْجِدَ سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ فَذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ قُمْ كَمَا أَنْتَ قَالَتْ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَامَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ جَالِسًا فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ جَالِسًا وَأَبُو بَكْرٍ قَائِمًا يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ يَقْتَدُونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 834

کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل باب: بیٹھ کر نماز پڑھنے والے امام کی اقتدا کرنا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیمار ہوئے تو بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی اطلاع دینے آئے۔ آپ نے فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ابوبکر بہت نرم دل آدمی ہیں۔ جب وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو (رونے کی وجہ سے) لوگوں کو قراءت نہ سنا سکیں گے۔ اگر آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں (تو اچھی بات ہے)۔ آپ نے فرمایا: (نہیں) ابوبکر سے کہو لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ میں نے حفصہ سے کہا: تم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو۔ انھوں نے بھی آپ سے کہا۔ آپ نے فرمایا: تم حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے والی عورتوں کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ لوگوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا۔ پھر جب انھوں نے نماز شروع کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ میں کچھ آرام اور افاقہ محسوس کیا۔ آپ اٹھے۔ دو آدمیوں کے درمیان آپ کو ان کے کندھوں کے سہارے چلایا گیا۔ پھر بھی آپ کے پاؤں مبارک زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ (آپ میں پاؤں اٹھانے کی سکت نہ تھی)۔ جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی آہٹ محسوس کرکے پیچھے ہٹنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اشارہ فرمایا کہ اسی طرح کھڑے رہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بائیں جانب بیٹھ گئے چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوکر آپ کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے۔
تشریح : (۱)[صواحبات یوسف] یعنی تم بھی ان عورتوں کی طرح اصل مقصد چھپائے ہوئے ظاہر کچھ اور کر رہی ہو۔ [صواحبات] سے مراد و عورتیں ہیں جنھوں نے مکر کے ساتھ ہاتھ کاٹے تھے۔ ہاتھ کاٹنے والی عورتیں یوسف علیہ السلام کو رجھانے (مائل کرنے) کا مقصد رکھتی تھیں مگر بظاہر امرأۃ العزیز (عزیز مصر کی بیوی) کو شرافت کا درس دے رہی تھیں۔ (۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افاقہ محسوس فرمایا۔ ظاہر الفاظ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید جس نماز میں ابوبکر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا گیا تھا اسی نماز کے دوران میں آپ نے افاقہ محسوس فرمایا اور مسجد کو تشریف لے گئے مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے بلکہ یہ کئی دن بعد کی بات ہے۔ گویا آپ کے حکم کے تحت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جماعت کراتے رہے۔ ایک دن جماعت شروع کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ محسوس ہوا اور آپ تشریف لے گئے۔ یاد رہے کہ یہ جماعت جو آپ نے اس طرح ادا فرمائی ظہر کی نماز تھی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح البخاری الاذان حدیث: ۶۸۷) (۳) بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے مقتدی کس طرح نماز پڑھیں؟ اس کی تفصیلی بحث پچھلی روایت میں گزر چکی ہے۔ دیکھیے حدیث: ۸۳۳۔ (۱)[صواحبات یوسف] یعنی تم بھی ان عورتوں کی طرح اصل مقصد چھپائے ہوئے ظاہر کچھ اور کر رہی ہو۔ [صواحبات] سے مراد و عورتیں ہیں جنھوں نے مکر کے ساتھ ہاتھ کاٹے تھے۔ ہاتھ کاٹنے والی عورتیں یوسف علیہ السلام کو رجھانے (مائل کرنے) کا مقصد رکھتی تھیں مگر بظاہر امرأۃ العزیز (عزیز مصر کی بیوی) کو شرافت کا درس دے رہی تھیں۔ (۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افاقہ محسوس فرمایا۔ ظاہر الفاظ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید جس نماز میں ابوبکر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا گیا تھا اسی نماز کے دوران میں آپ نے افاقہ محسوس فرمایا اور مسجد کو تشریف لے گئے مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے بلکہ یہ کئی دن بعد کی بات ہے۔ گویا آپ کے حکم کے تحت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جماعت کراتے رہے۔ ایک دن جماعت شروع کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ محسوس ہوا اور آپ تشریف لے گئے۔ یاد رہے کہ یہ جماعت جو آپ نے اس طرح ادا فرمائی ظہر کی نماز تھی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح البخاری الاذان حدیث: ۶۸۷) (۳) بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے مقتدی کس طرح نماز پڑھیں؟ اس کی تفصیلی بحث پچھلی روایت میں گزر چکی ہے۔ دیکھیے حدیث: ۸۳۳۔