كِتَابُ الْإِمَامَةِ الِائْتِمَامُ بِالْإِمَامِ يُصَلِّي قَاعِدًا صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ فَرَسًا فَصُرِعَ عَنْهُ فَجُحِشَ شِقُّهُ الْأَيْمَنُ فَصَلَّى صَلَاةً مِنْ الصَّلَوَاتِ وَهُوَ قَاعِدٌ فَصَلَّيْنَا وَرَاءَهُ قُعُودًا فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ
کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل
باب: بیٹھ کر نماز پڑھنے والے امام کی اقتدا کرنا
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو اس سے گر گئے اور آپ کا دایاں پہلو چھل گیا۔ آپ نے کوئی ایک نماز بیٹھ کر پڑھی۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا: امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے لہٰذا جب وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو اس سے گر گئے اور آپ کا دایاں پہلو چھل گیا۔ آپ نے کوئی ایک نماز بیٹھ کر پڑھی۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا: امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے لہٰذا جب وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
تشریح :
(۱)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیٹھ کر نماز شروع فرمائی تو صحابہ کھڑے تھے پھر نماز میں آپ نے بیٹھنے کا اشارہ فرمایا تو وہ بھی بیٹھ گئے۔ (صحیح مسلم الصلاۃ حدیث: ۴۱۲) (۲) تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔ اہل ظاہر نے ان الفاظ سے استدلال کرتے ہئے جالس امام کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھنے کو واجب کہا ہے جب کہ اہل علم نے اس روایت کو اس روایت سے منسوخ قرار دیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی دائیں جانب کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے تھے کیونکہ وہ مجمع عام میں آپ کی آخری نماز ہے۔ بعد والی روایت پہلی روایت کے لیے ناسخ ہے مگر اس میں اشکال ہے کہ بعد والی روایت فعلی ہے جب کہ پہلی روایت قولی ہے۔ قول و فعل کے تعارض کے وقت قول کو ترجیح دی جاتی ہے مگر پہلی روایت سے چونکہ بیٹھنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور دوسری روایت سے بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے کھڑے رہنے ا جواز ثابت ہوتا ہے اس لیے یہ فعل وجوب کا بہرحال ناسخ ہے البتہ امام احمد رحمہ اللہ اور بعض دیگر محدثین نے ان دونوں روایات میں یہ تطبیق دی ہے کہ اگر نماز کی ابتدا بیٹھنے سے ہوئی تو پھر مقتدیوں کو قولی روایت کے مطابق بیٹھ کر ہی نماز پڑھنی چاہیے لیکن اگر درمیان میں امام بیٹھے ابتدا کھڑے ہونے سے ہوئی ہو تو مقتدی کھڑے ہوکر نماز پڑھیں۔ اس طرح دونوں روایات پر مل ہو جائے گا۔ یوں بھی تطبیق دی گئی ہے کہ پہلی روایت کے امر [فصلوا جلوسا] کو استحباب پر محمول کر لیا جائے یعنی بیٹھے امام کے پیچھے بہتر ہے کہ مقتدی بیٹھ کر نماز پڑھیں لیکن اگر کھڑے ہو کر بھی پڑھ لیں تو جائز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی روایت کو منسوخ کہنے کی بجائے یہ تطیق مناسب ہے تاکہ کوئی روایت عمل سے خالی نہ رہے۔ بہرحال امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کی توجیہ و تطبیق راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ (۳) بعض لوگوں نے آخری جملے کے معنی یہ کیے ہیں کہ جب امام قعدے کے لیے بیٹھے تو تم بھی بیٹھو۔ مگر یہ بات اپنی جگہ صحیح ہونے کے باوجود اس جملے کا صحیح مفہوم نہیں کیونکہ نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ فرما کر مقتدیوں کو بٹھانا اس کے خلاف ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم الصلاۃ حدیث: ۴۱۲)
(۱)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیٹھ کر نماز شروع فرمائی تو صحابہ کھڑے تھے پھر نماز میں آپ نے بیٹھنے کا اشارہ فرمایا تو وہ بھی بیٹھ گئے۔ (صحیح مسلم الصلاۃ حدیث: ۴۱۲) (۲) تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔ اہل ظاہر نے ان الفاظ سے استدلال کرتے ہئے جالس امام کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھنے کو واجب کہا ہے جب کہ اہل علم نے اس روایت کو اس روایت سے منسوخ قرار دیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی دائیں جانب کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے تھے کیونکہ وہ مجمع عام میں آپ کی آخری نماز ہے۔ بعد والی روایت پہلی روایت کے لیے ناسخ ہے مگر اس میں اشکال ہے کہ بعد والی روایت فعلی ہے جب کہ پہلی روایت قولی ہے۔ قول و فعل کے تعارض کے وقت قول کو ترجیح دی جاتی ہے مگر پہلی روایت سے چونکہ بیٹھنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور دوسری روایت سے بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے کھڑے رہنے ا جواز ثابت ہوتا ہے اس لیے یہ فعل وجوب کا بہرحال ناسخ ہے البتہ امام احمد رحمہ اللہ اور بعض دیگر محدثین نے ان دونوں روایات میں یہ تطبیق دی ہے کہ اگر نماز کی ابتدا بیٹھنے سے ہوئی تو پھر مقتدیوں کو قولی روایت کے مطابق بیٹھ کر ہی نماز پڑھنی چاہیے لیکن اگر درمیان میں امام بیٹھے ابتدا کھڑے ہونے سے ہوئی ہو تو مقتدی کھڑے ہوکر نماز پڑھیں۔ اس طرح دونوں روایات پر مل ہو جائے گا۔ یوں بھی تطبیق دی گئی ہے کہ پہلی روایت کے امر [فصلوا جلوسا] کو استحباب پر محمول کر لیا جائے یعنی بیٹھے امام کے پیچھے بہتر ہے کہ مقتدی بیٹھ کر نماز پڑھیں لیکن اگر کھڑے ہو کر بھی پڑھ لیں تو جائز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی روایت کو منسوخ کہنے کی بجائے یہ تطیق مناسب ہے تاکہ کوئی روایت عمل سے خالی نہ رہے۔ بہرحال امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کی توجیہ و تطبیق راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ (۳) بعض لوگوں نے آخری جملے کے معنی یہ کیے ہیں کہ جب امام قعدے کے لیے بیٹھے تو تم بھی بیٹھو۔ مگر یہ بات اپنی جگہ صحیح ہونے کے باوجود اس جملے کا صحیح مفہوم نہیں کیونکہ نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ فرما کر مقتدیوں کو بٹھانا اس کے خلاف ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم الصلاۃ حدیث: ۴۱۲)