سنن النسائي - حدیث 826

كِتَابُ الْإِمَامَةِ مَا عَلَى الْإِمَامِ مِنْ التَّخْفِيفِ صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلَاةِ فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأُوجِزُ فِي صَلَاتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 826

کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل باب: امام کے لیے نماز ہلکی پڑھانے کی جو ذمہ داری ہے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بسا اوقات میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں پھر کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز کو مختصر کر دیتا ہوں کہ اس کی ماں پر مشتقت کا سبب نہ بن جاؤں۔
تشریح : (۱) فرض نماز ہر ایک نے باجماعت پڑھنی ہوتی ہے لوگ ہر قسم کے ہوتے ہیں ان میں معذور بھی ہوسکتے ہیں فطرتاً کمزور بھی مریض وغیرہ بھی بوڑھے بھی بچے بھی بچوں والی عورتیں بھی کام کاج کرنے والے لوگ بھی اور مصروفیت والے بھی لہٰذا امام کو چاہیے کہ فرض نماز ہلکی پڑھائے۔ اس قدر کہ مندرجہ بالا نمازی بھی آسانی سے نماز ادا کرسکیں۔ دل تنگ نہ ہوں ورنہ نماز کا مقصد فوت ہو جائے گا البتہ نفل نماز جو ہر ایک پر ضروری نہیں بلکہ نشاط پر موقوف ہے اسے مناسب لمبا کیا جا سکتا ہے مگر اس قدر نہیں کہ نمازی نماز سے بیزار ہو جائے۔ تراویح اگرچہ فرض نہیں مگر امت مسلمہ کا شعار ہے لہٰذا اس میں بھی تخفیف ضروری ہے۔ (۲) اکیلا آدمی اپنی چستی اور نشاط کے مطابق نماز لمبی کرسکتا ہے۔ (۳) کسی مقتدی کی تکلیف کے مدنظر یا کسی حادثے کی بنا پر نماز مختصر کی جا سکتی ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر ہوا۔ اسی طرح نمازیوں کے مفاد میں نماز لمبی بھی کی جا سکتی ہے مثلا: کثیر لوگ وضو کر رہے ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی وجہ سے پہلی رکعت لمبی پڑھایا کرتے تھے۔ (۱) فرض نماز ہر ایک نے باجماعت پڑھنی ہوتی ہے لوگ ہر قسم کے ہوتے ہیں ان میں معذور بھی ہوسکتے ہیں فطرتاً کمزور بھی مریض وغیرہ بھی بوڑھے بھی بچے بھی بچوں والی عورتیں بھی کام کاج کرنے والے لوگ بھی اور مصروفیت والے بھی لہٰذا امام کو چاہیے کہ فرض نماز ہلکی پڑھائے۔ اس قدر کہ مندرجہ بالا نمازی بھی آسانی سے نماز ادا کرسکیں۔ دل تنگ نہ ہوں ورنہ نماز کا مقصد فوت ہو جائے گا البتہ نفل نماز جو ہر ایک پر ضروری نہیں بلکہ نشاط پر موقوف ہے اسے مناسب لمبا کیا جا سکتا ہے مگر اس قدر نہیں کہ نمازی نماز سے بیزار ہو جائے۔ تراویح اگرچہ فرض نہیں مگر امت مسلمہ کا شعار ہے لہٰذا اس میں بھی تخفیف ضروری ہے۔ (۲) اکیلا آدمی اپنی چستی اور نشاط کے مطابق نماز لمبی کرسکتا ہے۔ (۳) کسی مقتدی کی تکلیف کے مدنظر یا کسی حادثے کی بنا پر نماز مختصر کی جا سکتی ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر ہوا۔ اسی طرح نمازیوں کے مفاد میں نماز لمبی بھی کی جا سکتی ہے مثلا: کثیر لوگ وضو کر رہے ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی وجہ سے پہلی رکعت لمبی پڑھایا کرتے تھے۔