سنن النسائي - حدیث 800

كِتَابُ الْإِمَامَةِ مَوْقِفُ الْإِمَامِ إِذَا كَانُوا ثَلَاثَةً وَالِاخْتِلَافُ فِي ذَلِكَ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْكُوفِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ عَنْ هَارُونَ بْنِ عَنْتَرَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ الْأَسْوَدِ وَعَلْقَمَةَ قَالَا دَخَلْنَا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ نِصْفَ النَّهَارِ فَقَالَ إِنَّهُ سَيَكُونُ أُمَرَاءُ يَشْتَغِلُونَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ فَصَلُّوا لِوَقْتِهَا ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى بَيْنِي وَبَيْنَهُ فَقَالَ هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 800

کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل باب: جب تین آدمی ہوں تو امام کہاں کھڑا ہو؟ اور اس میں اختلاف حضرت اسود اور علقمہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس دوپہر کے وقت حاضر ہوئے۔ انھوں نے فرمایا: تحقیق (وہ وقت) قریب ہے کہ ایسے امراء ہوں گے جو نماز کے وقت (اور کاموں میں) مصروف رہیں گے چنانچہ تم نماز وقت پر پڑھ لیا کرو پھر وہ اٹھے اور ہمارے درمیان کھڑے ہوکر نماز پڑھائی اور فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کرتے دیکھا ہے۔
تشریح : (۱)یہ روایت ان کثیر صحیح روایات کے خلاف ہے جن میں دو مقتدیوں کو امام کے پیچھے کھڑا کرنے کا ذکر ہے لہٰذا یہ روایت منسوخ ہے یعنی آغاز میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا پھر ترک کر دیا جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کا موقف ہے۔ یا پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھول گئے ہوں گے۔ انسان تھے اور نسیان بشر کا لازمہ ہے۔ اس کی تائید دیگر قرائن سے بھی ہوتی ہے جیسے ان کا رکوع میں تطبیق کرنا (دونوں ہاتھوں کو بجائے دونوں گھٹنوں پر رکھنے کے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے میں پیوست کرکے گھٹنوں کے درمیان رکھ لینا) وغیرہ۔ بہرحال حقیقت جو بھی ہو آغاز میں یہ صرف ابن مسعود اور ان کے صاحبین کا موقف تھا۔ باقی تمام صحابہ اور دیگر ائمہ عظام کثیر احادیث کی روشنی میں اسی بات کے قائل ہیں کہ جب تین افراد ہوں تو ایک کو آگے ہی امامت کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔ اور یہی حق ہے۔ اسی پر سب کا اتفاق ہے۔ احادیث و آثار کی تفصیل کے لیے دیکھیے (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۸۴-۸۰/۱۰) (۲) بعض نے اس حدیث کو ہارون بن عنترہ کی وجہ سے سنداً ضعیف قرار دیا ہے لیکن یہ موقف درست نہیں۔ ان کے بقول یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ذاتی فعل ہے جو مرفوع احادیث کے خلاف ہے لہٰذا حجت نہیں۔ لیکن درست بات یہ ہے کہ یہ حدیث مرفوعاً درست ہے اور جمہور کے نزدیک ہارون ثقہ ہے۔ الغرض یہ حدیث اب قابل عمل نہیں۔ مزید دیکھیے: (صحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني رقم الحدیث: ۶۲۶) (۱)یہ روایت ان کثیر صحیح روایات کے خلاف ہے جن میں دو مقتدیوں کو امام کے پیچھے کھڑا کرنے کا ذکر ہے لہٰذا یہ روایت منسوخ ہے یعنی آغاز میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا پھر ترک کر دیا جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کا موقف ہے۔ یا پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھول گئے ہوں گے۔ انسان تھے اور نسیان بشر کا لازمہ ہے۔ اس کی تائید دیگر قرائن سے بھی ہوتی ہے جیسے ان کا رکوع میں تطبیق کرنا (دونوں ہاتھوں کو بجائے دونوں گھٹنوں پر رکھنے کے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے میں پیوست کرکے گھٹنوں کے درمیان رکھ لینا) وغیرہ۔ بہرحال حقیقت جو بھی ہو آغاز میں یہ صرف ابن مسعود اور ان کے صاحبین کا موقف تھا۔ باقی تمام صحابہ اور دیگر ائمہ عظام کثیر احادیث کی روشنی میں اسی بات کے قائل ہیں کہ جب تین افراد ہوں تو ایک کو آگے ہی امامت کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔ اور یہی حق ہے۔ اسی پر سب کا اتفاق ہے۔ احادیث و آثار کی تفصیل کے لیے دیکھیے (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۸۴-۸۰/۱۰) (۲) بعض نے اس حدیث کو ہارون بن عنترہ کی وجہ سے سنداً ضعیف قرار دیا ہے لیکن یہ موقف درست نہیں۔ ان کے بقول یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ذاتی فعل ہے جو مرفوع احادیث کے خلاف ہے لہٰذا حجت نہیں۔ لیکن درست بات یہ ہے کہ یہ حدیث مرفوعاً درست ہے اور جمہور کے نزدیک ہارون ثقہ ہے۔ الغرض یہ حدیث اب قابل عمل نہیں۔ مزید دیکھیے: (صحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني رقم الحدیث: ۶۲۶)