سنن النسائي - حدیث 786

كِتَابُ الْإِمَامَةِ صَلَاةُ الْإِمَامِ خَلْفَ رَجُلٍ مِنْ رَعِيَّتِهِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ قَالَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ آخِرُ صَلَاةٍ صَلَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ الْقَوْمِ صَلَّى فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ مُتَوَشِّحًا خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 786

کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل امام کا اپنی رعیت میں سے کسی آدمی کے پیچھے نماز پڑھنا حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آخری نماز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ پڑھی وہ آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک کپڑے میں پڑھی تھی جسے آپ نے اپنے جسم پر لپیٹ رکھا تھا۔
تشریح : صاحب فضیلت انسان یا امیر عام رعایا کے کسی فرد کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے اس میں کوئی شرعی اور اخلاقی قباحت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک کے موقع پر دوران سفر میں لشکر سے پیچھے رہ گئے تھے۔ جب وہ قوم کے پاس پہنچے تو انھیں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اقتدا میں نماز ادا فرمائی۔ دیکھیے: (صحیح مسلم الطھارۃ حدیث: ۲۷۴) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نماز کے بارے میں اختلاف ہے کہ آپ اس میں امام تھے یا مقتدی؟ نیز یہ واقعہ ایک دفعہ کا ہے یا دو دفعہ کا؟ بعض نے کہا ہے کہ یہ واقعہ دو مرتبہ کا ہے۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے اور ایک دفعہ مقتدی۔ اگر بات ایسے ہی ہے تو پھر تو امام صاحب کا ان احادیث سے استدلال واضح ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ واقعہ ایک دفعہ کا ہے لہٰذا اس صورت میں آپ امام تھے یا مقتدی؟ اس بارے میں روایات مختلف ہیں۔ بعض روایات کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی تھے جیسا کہ سنن نسائی کی حدیث: ۷۸۶ ۷۸۷ کے الفاظ ہیں لیکن راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے کیونکہ بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بائیں جانب بیٹھے اور یہ بات واضح ہے کہ امام بائیں جانب ہوتا ہے نیز اس روایت کے الفاظ ہیں: [یقتدی أبوبکر بصلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم] ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے۔ (صحیح البخاري: الأذان حدیث: ۷۱۳ و صحیح مسلم الصلاۃ حدیث: ۴۱۸) حافظ ابن حجر امام نووی اور صاحب تحفۃ الاحوذی رحم اللہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ اس صورت میں امام نسائی رحمہ اللہ کا ان احادیث سے استدلال محل نظر ہے۔ بہرحال اس بارے میں اختلاف ہے۔ دونوں طرف اہل علم ہیں۔ کسی ایک رائے کو حتمی کہنا مشکل ہے۔ واللہ أعلم۔ صاحب فضیلت انسان یا امیر عام رعایا کے کسی فرد کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے اس میں کوئی شرعی اور اخلاقی قباحت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک کے موقع پر دوران سفر میں لشکر سے پیچھے رہ گئے تھے۔ جب وہ قوم کے پاس پہنچے تو انھیں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اقتدا میں نماز ادا فرمائی۔ دیکھیے: (صحیح مسلم الطھارۃ حدیث: ۲۷۴) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نماز کے بارے میں اختلاف ہے کہ آپ اس میں امام تھے یا مقتدی؟ نیز یہ واقعہ ایک دفعہ کا ہے یا دو دفعہ کا؟ بعض نے کہا ہے کہ یہ واقعہ دو مرتبہ کا ہے۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے اور ایک دفعہ مقتدی۔ اگر بات ایسے ہی ہے تو پھر تو امام صاحب کا ان احادیث سے استدلال واضح ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ واقعہ ایک دفعہ کا ہے لہٰذا اس صورت میں آپ امام تھے یا مقتدی؟ اس بارے میں روایات مختلف ہیں۔ بعض روایات کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی تھے جیسا کہ سنن نسائی کی حدیث: ۷۸۶ ۷۸۷ کے الفاظ ہیں لیکن راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے کیونکہ بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بائیں جانب بیٹھے اور یہ بات واضح ہے کہ امام بائیں جانب ہوتا ہے نیز اس روایت کے الفاظ ہیں: [یقتدی أبوبکر بصلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم] ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے۔ (صحیح البخاري: الأذان حدیث: ۷۱۳ و صحیح مسلم الصلاۃ حدیث: ۴۱۸) حافظ ابن حجر امام نووی اور صاحب تحفۃ الاحوذی رحم اللہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ اس صورت میں امام نسائی رحمہ اللہ کا ان احادیث سے استدلال محل نظر ہے۔ بہرحال اس بارے میں اختلاف ہے۔ دونوں طرف اہل علم ہیں۔ کسی ایک رائے کو حتمی کہنا مشکل ہے۔ واللہ أعلم۔