سنن النسائي - حدیث 78

ذِكْرُ الْفِطْرَةِ بَاب التَّسْمِيَةِ عِنْدَ الْوُضُوءِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ثَابِتٍ وَقَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ قَالَ طَلَبَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضُوءًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْكُمْ مَاءٌ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الْمَاءِ وَيَقُولُ تَوَضَّئُوا بِسْمِ اللَّهِ فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ حَتَّى تَوَضَّئُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ قَالَ ثَابِتٌ قُلْتُ لِأَنَسٍ كَمْ تُرَاهُمْ قَالَ نَحْوًا مِنْ سَبْعِينَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 78

کتاب: امور فطرت کا بیان وضو شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھنی چاہیے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ نے وضو کا پاین تلاش کیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم میں سے کسی کے پاس کچھ پانی ہے؟‘‘ (پانی لایا گیا) تو آپ نے اپنا ہاتھ پانی میں رکھ دیا اور فرمایا: ’’اللہ کا نام لے کر وضو کرو۔‘‘ چنانچہ میں نے آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی نکلتا دیکھا حتی کہ سب نے وضو کرلیا۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ کے شاگرد) ثابت نے کہا کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کے خیال میں وہ کتنے ہوں گے؟ تو انھوں نے فرمایا: تقریباً ستر (۷۰)۔
تشریح : اس حدیث سے وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے، البتہ اختلاف اس مسئلے میں یہ ہے کہ کیا بسم اللہ پڑھنا واجب ہے یا سنت؟ جمہور اہل علم کے نزدیک وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سنت ہے کیونکہ وہ مذکورہ حدیث اور اس مفہوم کی دیگر احادیث کو سنت اور مشروعیت پر محمول کرتے ہیں جبکہ امام حسن، اسحاق بن راہویہ اور اہل ظاہر کا موقف یہ ہے کہ وضو میں بسم اللہ پڑھنا واجب ہے، اگر کوئی جان بوجھ کر بسم اللہ نہیں پڑھتا تو اس کا وضو نہیں ہوگا، اسے دوبارہ وضو کرنا چاہیے۔ دیکھیے: (صحیح الترغیب: ۲۰۱/۱) کیونکہ وہ اس حدیث: [لا وضوء لمن لم یذکر اسم اللہ علیہ] ’’جس نے وضو میں بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضو ہی نہیں۔‘‘ (جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث: ۲۵) کو اور اس مفہوم کی دیگر احادیث کو وجوب پر محمول کرتے ہیں۔ امام اسحاق رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ اگر کوئی وضو میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے یا کسی تاویل کی بنا پر وضو سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھتا تو اس کا وضو ہو جائے گا۔ دیکھیے: (جامع الترمذي، الطھارۃ، حدیث: ۲۵) بہرحال دلائل کی رو سے راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ وضو میں بسم اللہ پڑھنا واجب ہے جیسا کہ امام اسحاق رحمہ اللہ وغیرہ کا موقف ہے اور حدیث کے ظاہر الفاظ کا تقاضا بھی یہی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سبل السلام: ۸۶/۱، وإرواء الغلیل: ۱۲۲/۱) اس حدیث سے وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے، البتہ اختلاف اس مسئلے میں یہ ہے کہ کیا بسم اللہ پڑھنا واجب ہے یا سنت؟ جمہور اہل علم کے نزدیک وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سنت ہے کیونکہ وہ مذکورہ حدیث اور اس مفہوم کی دیگر احادیث کو سنت اور مشروعیت پر محمول کرتے ہیں جبکہ امام حسن، اسحاق بن راہویہ اور اہل ظاہر کا موقف یہ ہے کہ وضو میں بسم اللہ پڑھنا واجب ہے، اگر کوئی جان بوجھ کر بسم اللہ نہیں پڑھتا تو اس کا وضو نہیں ہوگا، اسے دوبارہ وضو کرنا چاہیے۔ دیکھیے: (صحیح الترغیب: ۲۰۱/۱) کیونکہ وہ اس حدیث: [لا وضوء لمن لم یذکر اسم اللہ علیہ] ’’جس نے وضو میں بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضو ہی نہیں۔‘‘ (جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث: ۲۵) کو اور اس مفہوم کی دیگر احادیث کو وجوب پر محمول کرتے ہیں۔ امام اسحاق رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ اگر کوئی وضو میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے یا کسی تاویل کی بنا پر وضو سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھتا تو اس کا وضو ہو جائے گا۔ دیکھیے: (جامع الترمذي، الطھارۃ، حدیث: ۲۵) بہرحال دلائل کی رو سے راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ وضو میں بسم اللہ پڑھنا واجب ہے جیسا کہ امام اسحاق رحمہ اللہ وغیرہ کا موقف ہے اور حدیث کے ظاہر الفاظ کا تقاضا بھی یہی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سبل السلام: ۸۶/۱، وإرواء الغلیل: ۱۲۲/۱)