سنن النسائي - حدیث 778

كِتَابُ الْإِمَامَةِ ذِكْرُ الْإِمَامَةِ وَالْجَمَاعَةِ إِمَامَةُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ حسن الإسناد أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلَيٍّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ الْأَنْصَارُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ فَأَتَاهُمْ عُمَرُ فَقَالَ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فَأَيُّكُمْ تَطِيبُ نَفْسُهُ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ نَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 778

کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل باب: امامت اور جماعت کے مسائل علم و فضیلت والے لوگوں کو امام بنانا چاہیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو انصار نے کہا: ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک تم (مہاجرین) میں سے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور فرمایا: کیا تم جانتے نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ تو تم میں سے کون چاہے گا کہ ابوبکر سے آگے بڑھے؟ انھوں نے کہا: ہم اس بات سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں کہ ہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھیں۔
تشریح : (۱) انصار یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ مدینہ منورہ اصلاً ہماری بستی ہے، لہٰذا امیر (رسول اللہ ئ کا جانشین) ہم میں سے ہونا چاہیے لیکن یہ صرف شہر مدینہ کے امیر کے انتخاب کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ پوری مملکت اسلامیہ کے امیر کا مسئلہ تھا۔ ظاہر ہے کہ مملکت اسلامیہ کا امیر ایسا شخص ہونا چاہیے تھا جسے وسیع تر پیمانے پر سیاسی حمایت حاصل ہو اور اس کا تعلق ایسے قبیلے سے ہو جسے شہرت، سیادت اور عزت کم از کم عربوں کی حد تک ضرور حاصل ہو کیونکہ اس وقت اسلام عربوں ہی تک محدود تھا اور اس دور میں قریش کے علاوہ کوئی قبیلہ ان شرائط پر پورا نہ اترتا تھا۔ بیت اللہ کے متولی ہونے کی وجہ سے انھیں پورے عرب میں بے پناہ عزت و احترام حاصل تھا۔ ان کی سیادت کو سب عرب مانتے تھے اور وہ پورے عرب میں مشہور و معروف تھے۔ یہ چیزیں انصار کو حاصل نہ تھیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی یا رہنمائی فرما دی تھی: [الائمۃ من قریش] ’’خلفاء قریش سے ہوں گے۔‘‘ (مسند أحمد: ۱۲۹/۳، و مسند أبي داود العلیالسی، حدیث: ۲۲۴۷) اور قریش میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو مقام و مرتبہ حاصل تھا، وہ کسی اور کو نہ تھا۔ سب سے پہلے اسلام لانے والے، نبوت سے قبل بھی آپ کے دوست، تادم وفات آپ کے ساتھی اور مشیر، آپ کے سسر، ہجرت میں آپ کے رفیق، عشرۂ مبشرہ میں سے اولین شخصیت، تقویٰ و سخاوت اور دور اندیشی میں تمام صحابہ سے فائق اور سب کے نزدیک محترم و مکرم، انھی وجوہات کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کے دنوں میں انھیں امامت کے لیے مقرر فرمایا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: ۶۷۸، و صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: ۴۱۸) یہ واضح اشارہ تھا کہ آئندہ امیر امیر اور خلیفہ بھی ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہی ہوں گے کیونکہ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ امیر کوئی اور ہو او ر جماعت کوئی اور کرائے۔ انصار اس طرف توجہ نہ کرسکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے سے انصار کے ذہن میں یہ نکتہ آگیا اور مسئلہ حل ہوگیا۔ (۲) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امامت کے لیے مقرر فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم و فضل ہی کو امامت جیسے جلیل القدر منصب پر فائز کیا جانا چاہیے، نیز أعلم کو اقرا پر ترجیح دینا جائز ہے جب دیگر مقاصد مدنظر ہوں کیونکہ أقرا تو صحیح حدیث کی رو سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث: ۳۷۹۰، ۳۷۹۱، و سنن ابن ماجہ، السنۃ، حدیث: ۱۵۴) جبکہ مطلقاً أعلم کو أقرا پر مقدم کرنے کا استدلال درست نہیں کیونکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تقدیم کا مقصد صرف نماز کی امامت نہ تھا بلکہ یہ امامت کبری، یعنی ان کی خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا۔ واللہ أعلم۔ (۱) انصار یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ مدینہ منورہ اصلاً ہماری بستی ہے، لہٰذا امیر (رسول اللہ ئ کا جانشین) ہم میں سے ہونا چاہیے لیکن یہ صرف شہر مدینہ کے امیر کے انتخاب کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ پوری مملکت اسلامیہ کے امیر کا مسئلہ تھا۔ ظاہر ہے کہ مملکت اسلامیہ کا امیر ایسا شخص ہونا چاہیے تھا جسے وسیع تر پیمانے پر سیاسی حمایت حاصل ہو اور اس کا تعلق ایسے قبیلے سے ہو جسے شہرت، سیادت اور عزت کم از کم عربوں کی حد تک ضرور حاصل ہو کیونکہ اس وقت اسلام عربوں ہی تک محدود تھا اور اس دور میں قریش کے علاوہ کوئی قبیلہ ان شرائط پر پورا نہ اترتا تھا۔ بیت اللہ کے متولی ہونے کی وجہ سے انھیں پورے عرب میں بے پناہ عزت و احترام حاصل تھا۔ ان کی سیادت کو سب عرب مانتے تھے اور وہ پورے عرب میں مشہور و معروف تھے۔ یہ چیزیں انصار کو حاصل نہ تھیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی یا رہنمائی فرما دی تھی: [الائمۃ من قریش] ’’خلفاء قریش سے ہوں گے۔‘‘ (مسند أحمد: ۱۲۹/۳، و مسند أبي داود العلیالسی، حدیث: ۲۲۴۷) اور قریش میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو مقام و مرتبہ حاصل تھا، وہ کسی اور کو نہ تھا۔ سب سے پہلے اسلام لانے والے، نبوت سے قبل بھی آپ کے دوست، تادم وفات آپ کے ساتھی اور مشیر، آپ کے سسر، ہجرت میں آپ کے رفیق، عشرۂ مبشرہ میں سے اولین شخصیت، تقویٰ و سخاوت اور دور اندیشی میں تمام صحابہ سے فائق اور سب کے نزدیک محترم و مکرم، انھی وجوہات کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کے دنوں میں انھیں امامت کے لیے مقرر فرمایا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: ۶۷۸، و صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: ۴۱۸) یہ واضح اشارہ تھا کہ آئندہ امیر امیر اور خلیفہ بھی ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہی ہوں گے کیونکہ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ امیر کوئی اور ہو او ر جماعت کوئی اور کرائے۔ انصار اس طرف توجہ نہ کرسکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے سے انصار کے ذہن میں یہ نکتہ آگیا اور مسئلہ حل ہوگیا۔ (۲) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امامت کے لیے مقرر فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم و فضل ہی کو امامت جیسے جلیل القدر منصب پر فائز کیا جانا چاہیے، نیز أعلم کو اقرا پر ترجیح دینا جائز ہے جب دیگر مقاصد مدنظر ہوں کیونکہ أقرا تو صحیح حدیث کی رو سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث: ۳۷۹۰، ۳۷۹۱، و سنن ابن ماجہ، السنۃ، حدیث: ۱۵۴) جبکہ مطلقاً أعلم کو أقرا پر مقدم کرنے کا استدلال درست نہیں کیونکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تقدیم کا مقصد صرف نماز کی امامت نہ تھا بلکہ یہ امامت کبری، یعنی ان کی خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا۔ واللہ أعلم۔