سنن النسائي - حدیث 777

كِتَابُ الْقِبْلَةِ أَيْنَ يَضَعُ الْإِمَامُ نَعْلَيْهِ إِذَا صَلَّى بِالنَّاسِ صحيح أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ وَشُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ يَحْيَى عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى يَوْمَ الْفَتْحِ فَوَضَعَ نَعْلَيْهِ عَنْ يَسَارِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 777

کتاب: قبلے سے متعلق احکام و مسائل جب امام لوگوں کو نماز پڑھائے تو جوتے کہاں رکھے؟ حضرت عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن نماز پڑھی تو آپ نے اپنے جوتوں کو اپنی بائیں طرف رکھا۔
تشریح : چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے اور آپ کے بائیں جانب کوئی نہ تھا، لہٰذا آپ نے اپنے جوتے بائیں طرف رکھے۔ اگر بائیں طرف کوئی آدمی کھڑا ہو تو بائیں طرف جوتے نہیں رکھنے چاہئیں۔ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنا ضروری نہیں، صرف جائز ہے، البتہ آپ کے دور میں جب یہودی بھی مدینہ منورہ میں رہتے تھے، جوتوں میں نماز پڑھنا مستحب تھا کیونکہ اس سے امتیاز ہوتا تھا۔ آج کل اسلامی ممالک میں یہودی نہیں ہیں، لہٰذا جوتے میں نماز مستحب نہیں بلکہ حسب ضرورت صرف جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے اور آپ کے بائیں جانب کوئی نہ تھا، لہٰذا آپ نے اپنے جوتے بائیں طرف رکھے۔ اگر بائیں طرف کوئی آدمی کھڑا ہو تو بائیں طرف جوتے نہیں رکھنے چاہئیں۔ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنا ضروری نہیں، صرف جائز ہے، البتہ آپ کے دور میں جب یہودی بھی مدینہ منورہ میں رہتے تھے، جوتوں میں نماز پڑھنا مستحب تھا کیونکہ اس سے امتیاز ہوتا تھا۔ آج کل اسلامی ممالک میں یہودی نہیں ہیں، لہٰذا جوتے میں نماز مستحب نہیں بلکہ حسب ضرورت صرف جائز ہے۔ واللہ أعلم۔