سنن النسائي - حدیث 76

ذِكْرُ الْفِطْرَةِ الْوُضُوءُ مِنْ الْإِنَاءِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَانَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ فَالْتَمَسَ النَّاسُ الْوَضُوءَ فَلَمْ يَجِدُوهُ فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَضُوءٍ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي ذَلِكَ الْإِنَاءِ وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَتَوَضَّئُوا فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ أَصَابِعِهِ حَتَّى تَوَضَّئُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 76

کتاب: امور فطرت کا بیان برتن سے(پانی لے لے کر)وضو کرنا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جبکہ عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ لوگوں نے وضو کے لیے پانی تلاش کیا مگر نہ ملا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ پانی لایا گیا۔ آپ نے اپنا دست مبارک اس برتن میں رکھا اور لوگوں کو وضو کرنے کا حکم دیا، چنانچہ میں نے دیکھا کہ پانی آپ کی انگلیوں کے نیچے سے (چشمہ کی طرح) پھوٹ رہا تھا حتی کہ سب لوگوں نے وضو کر لیا۔
تشریح : (۱) باب کا مطلب یہ ہے کہ برتن سے چلو لے کر وضو کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس طریقے سے بابر بار ہاتھ کو برتن میں داخل کرنا پڑے گا اور اس کے ساتھ ہاتھ کو لگا ہوا سابقہ پانی بھی برتن میں کرے گا، مگر اس میں کوئی حرج نہیں۔ (۲) اس قسم کے بہت سے واقعات صحیح احادیث میں مذکور ہیں کہ تھوڑا پانی بہت سے لوگوں کو کفایت کر گیا حتی کہ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے پانی کو بڑھتا ہوا دیکھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۲۹۱،۲۹۰/۲) اسی طرح کئی دفعہ تھوڑا کھانا بھی بہت سے افراد کو کفایت کر گیا جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: ۴۱۰۲) لہٰذا ان معجزات کا انکار کرنا دوپہر کے وقت سورج کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔ اس چیز کو برکت کہا گیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ جب کسی چیز کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کر دی جاتی ہے تو وہاں اس جہان کے پیمانے کام نہیں کرتے۔ اگر منی کے ایک نظر نہ آنے والے جرثومے سے اتنا بڑا انسان بن سکتا ہے، ایک چھوٹے سے بیج سے اتنا بڑا درخت وجود میں آسکتا ہے، تو ان واقعات پر کیا تعجب ہے؟ وقت، جگہ اور حد ہمارے لیے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے بہت بلند و بالا ہے۔ (۱) باب کا مطلب یہ ہے کہ برتن سے چلو لے کر وضو کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس طریقے سے بابر بار ہاتھ کو برتن میں داخل کرنا پڑے گا اور اس کے ساتھ ہاتھ کو لگا ہوا سابقہ پانی بھی برتن میں کرے گا، مگر اس میں کوئی حرج نہیں۔ (۲) اس قسم کے بہت سے واقعات صحیح احادیث میں مذکور ہیں کہ تھوڑا پانی بہت سے لوگوں کو کفایت کر گیا حتی کہ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے پانی کو بڑھتا ہوا دیکھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۲۹۱،۲۹۰/۲) اسی طرح کئی دفعہ تھوڑا کھانا بھی بہت سے افراد کو کفایت کر گیا جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: ۴۱۰۲) لہٰذا ان معجزات کا انکار کرنا دوپہر کے وقت سورج کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔ اس چیز کو برکت کہا گیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ جب کسی چیز کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کر دی جاتی ہے تو وہاں اس جہان کے پیمانے کام نہیں کرتے۔ اگر منی کے ایک نظر نہ آنے والے جرثومے سے اتنا بڑا انسان بن سکتا ہے، ایک چھوٹے سے بیج سے اتنا بڑا درخت وجود میں آسکتا ہے، تو ان واقعات پر کیا تعجب ہے؟ وقت، جگہ اور حد ہمارے لیے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے بہت بلند و بالا ہے۔