سنن النسائي - حدیث 759

كِتَابُ الْقِبْلَةِ الرُّخْصَةُ فِي ذَلِكَ ضعيف أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ عَنْ كَثِيرِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ بِحِذَائِهِ فِي حَاشِيَةِ الْمَقَامِ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الطُّوَّافِ أَحَدٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 759

کتاب: قبلے سے متعلق احکام و مسائل اس امر کی رخصت کا بیان حضرت کثیر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے، پھر بیت اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر مقام ابراہیم کے ایک کنارے کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں اور آپ کے اور طواف کرنے والوں کے درمیان کوئی نہ تھا۔
تشریح : اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ خانہ کعبہ میں نمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے، بعض محدثین کا موقف بھی یہی ہے کہ مسجد حرام، یعنی بیت اللہ شریف میں سترے کے بارے میں نرمی ہے جس طرح کہ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے اپنی ’’المصنف‘‘ میں ان الفاظ سے باب باندھا ہے: [باب: لا یقطع الصلاۃ بمکۃ شیی] (المصنف: ۳۵/۲) پھر اس باب کے تحت جو مرفوع حدیث بیان کی ہے، وہ یہی ’’کثیر بن کثیر عن ابیہ عن جدہ‘‘ یعنی سنن نسائی والی روایت ہے۔ یہ روایت دوسری کتب سنن میں بھی موجود ہے۔ بیت اللہ میں سترے کی نرمی کے متعلق مرفوعاً یہی روایت بیان کی جاتی ہے، لیکن یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس روایت کے ضعف کی طرف بڑے خوبصورت اور نفیس انداز میں اشارہ فرمایا ہے۔ اس روایت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: [رجالہ موتقون الا انہ معلول] ’’اس حدیث کےراوی ثقہ ہیں مگر یہ حدیث معلول (پوشیدہ علت کی وجہ سے ضعیف) ہے۔‘‘ (فتح الباري: ۷۴۵/۱، تحت حدیث: ۵۰۱) امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح الجامع میں ان الفاظ سے باب باندھا ہے [باب السترہ بمکۃ و غیرھا] یعنی ’’مکہ اور مکہ کے علاوہ دوسری جگہ سترے کا بیان۔‘‘ پھر حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بیان فرمائی ہے جس کا مفہوم یہ ہے: ابو جحیفہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحاء مکہ میں اپنے سامنے نیزہ گاڑ کر ہمیں نماز پڑھائی۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث: ۵۰۱) اسی طرح امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے ’’المصنف‘‘ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا یہ اثر نقل فرمایا ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے مسجد حرام، یعنی بیت اللہ شریف میں (اپنے سامنے) لاٹھی گاڑ کر نماز پڑھی۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ، قدرکم یستر المصلي، حدیث: ۲۸۵۳) اس سے معلوم ہوا کہ نماز کے لیے سترے کا حکم عام ہے، چاہے مکہ، مدینہ یا کوئی اور جگہ ہو۔ بیعت اللہ شریف اور مسجد نبوی ہو یا کوئی اور مسجد، نمازی کے لیے سترہ بہرحال ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ [لاتصل الا الی سترہ] (صحیح ابن خزیمۃ: ۱۰/۲، حدیث: ۸۰۰) یعنی ’’سترے ہی کی طرف نماز پڑھو۔‘‘ نیز فرمایا: [اذا صلی احد کم فلیصل الی سترہ ولیدن منھا] (سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: ۶۹۵) ’’جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو وہ سترے کی طرف پڑھے اور سترے کے قریب کھڑا ہو۔‘‘ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حدیث میں وارد ہے کہ نمازی اپنے آگے سے کسی کو گزرنے نہ دے بلکہ گزرنے والے کو روکے۔ اگر کوئی نہ رکے تو اسے زبردستی روکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کے آگےسے گزرنے والے کو شیطان قرار دیا ہے۔ مذکورہ دلائل سے جہاں سترے کا وجوب معلوم ہوتا ہے وہاں بیت اللہ شریف میں لوگوں کے ازدحام اور ان کی کثرت کا مسئلہ بھی درپیش ہے، لہٰذا اس کا لحاظ رکھنا بھی مناسب ہے، اس لیے (ماتقوا اللہ ما استطعتم) (التغابن ۱۶:۶۴) پر عمل کرنا چاہیے۔ حرمین شریفین میں بھی سترے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہاں، اضطراری صورت اس سے مستثنیٰ ہے۔ وہاں لوگوں کی کثرت کی وجہ سے کوشش کے باوجود بھی اگر سترے کا اہتمام نہیں ہوسکا تو ایسا شخص اس آیت کا مصداق قرار پائے گا: (فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اتم علیہ ان اللہ غفور رحیم)(البقرۃ ۱۷۳:۲) ان شاء اللہ۔ اس طرح کا مجبور شخص عدم سترہ کی سخت وعید سے بچ جائے گا۔ واللہ أعلم۔ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ خانہ کعبہ میں نمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے، بعض محدثین کا موقف بھی یہی ہے کہ مسجد حرام، یعنی بیت اللہ شریف میں سترے کے بارے میں نرمی ہے جس طرح کہ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے اپنی ’’المصنف‘‘ میں ان الفاظ سے باب باندھا ہے: [باب: لا یقطع الصلاۃ بمکۃ شیی] (المصنف: ۳۵/۲) پھر اس باب کے تحت جو مرفوع حدیث بیان کی ہے، وہ یہی ’’کثیر بن کثیر عن ابیہ عن جدہ‘‘ یعنی سنن نسائی والی روایت ہے۔ یہ روایت دوسری کتب سنن میں بھی موجود ہے۔ بیت اللہ میں سترے کی نرمی کے متعلق مرفوعاً یہی روایت بیان کی جاتی ہے، لیکن یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس روایت کے ضعف کی طرف بڑے خوبصورت اور نفیس انداز میں اشارہ فرمایا ہے۔ اس روایت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: [رجالہ موتقون الا انہ معلول] ’’اس حدیث کےراوی ثقہ ہیں مگر یہ حدیث معلول (پوشیدہ علت کی وجہ سے ضعیف) ہے۔‘‘ (فتح الباري: ۷۴۵/۱، تحت حدیث: ۵۰۱) امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح الجامع میں ان الفاظ سے باب باندھا ہے [باب السترہ بمکۃ و غیرھا] یعنی ’’مکہ اور مکہ کے علاوہ دوسری جگہ سترے کا بیان۔‘‘ پھر حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بیان فرمائی ہے جس کا مفہوم یہ ہے: ابو جحیفہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحاء مکہ میں اپنے سامنے نیزہ گاڑ کر ہمیں نماز پڑھائی۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث: ۵۰۱) اسی طرح امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے ’’المصنف‘‘ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا یہ اثر نقل فرمایا ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے مسجد حرام، یعنی بیت اللہ شریف میں (اپنے سامنے) لاٹھی گاڑ کر نماز پڑھی۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ، قدرکم یستر المصلي، حدیث: ۲۸۵۳) اس سے معلوم ہوا کہ نماز کے لیے سترے کا حکم عام ہے، چاہے مکہ، مدینہ یا کوئی اور جگہ ہو۔ بیعت اللہ شریف اور مسجد نبوی ہو یا کوئی اور مسجد، نمازی کے لیے سترہ بہرحال ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ [لاتصل الا الی سترہ] (صحیح ابن خزیمۃ: ۱۰/۲، حدیث: ۸۰۰) یعنی ’’سترے ہی کی طرف نماز پڑھو۔‘‘ نیز فرمایا: [اذا صلی احد کم فلیصل الی سترہ ولیدن منھا] (سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: ۶۹۵) ’’جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو وہ سترے کی طرف پڑھے اور سترے کے قریب کھڑا ہو۔‘‘ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حدیث میں وارد ہے کہ نمازی اپنے آگے سے کسی کو گزرنے نہ دے بلکہ گزرنے والے کو روکے۔ اگر کوئی نہ رکے تو اسے زبردستی روکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کے آگےسے گزرنے والے کو شیطان قرار دیا ہے۔ مذکورہ دلائل سے جہاں سترے کا وجوب معلوم ہوتا ہے وہاں بیت اللہ شریف میں لوگوں کے ازدحام اور ان کی کثرت کا مسئلہ بھی درپیش ہے، لہٰذا اس کا لحاظ رکھنا بھی مناسب ہے، اس لیے (ماتقوا اللہ ما استطعتم) (التغابن ۱۶:۶۴) پر عمل کرنا چاہیے۔ حرمین شریفین میں بھی سترے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہاں، اضطراری صورت اس سے مستثنیٰ ہے۔ وہاں لوگوں کی کثرت کی وجہ سے کوشش کے باوجود بھی اگر سترے کا اہتمام نہیں ہوسکا تو ایسا شخص اس آیت کا مصداق قرار پائے گا: (فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اتم علیہ ان اللہ غفور رحیم)(البقرۃ ۱۷۳:۲) ان شاء اللہ۔ اس طرح کا مجبور شخص عدم سترہ کی سخت وعید سے بچ جائے گا۔ واللہ أعلم۔