سنن النسائي - حدیث 757

كِتَابُ الْقِبْلَةِ التَّشْدِيدُ فِي الْمُرُورِ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي وَبَيْنَ سُتْرَتِهِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ أَرْسَلَهُ إِلَى أَبِي جُهَيْمٍ يَسْأَلُهُ مَاذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي فَقَالَ أَبُو جُهَيْمٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 757

کتاب: قبلے سے متعلق احکام و مسائل نمازی اور سترے کے درمیان سے گزرنا سخت گناہ ہے حضرت زید بن خالد نے بسر بن سعید کو حضرت ابو جہیم رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ ان سے پوچھے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے میں کیاسنا ہے؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر اس فعل کا کس قدر گناہ ہے تو اس کے لیے چالیس (سال یا مہینے یا دن) تک رکے رہنا اس کے آگے سے گزرنے سے بہتر ہو۔‘‘
تشریح : (۱) اس روایت میں چالیس کے بعد سال کا ذکر نہیں۔ مسند بزار میں خریف کا لفظ ہے، اس کے معنی ’’سال‘‘ کے ہیں لیکن یہ لفظ سنداً ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (تمام المنۃ للألباني، ص:۳۰۲، و فتح الباري: ۵۸۵/۱، حدیث: ۵۱۰) ایک حدیث میں [مائۃ عام] ’’سو سال‘‘ کھڑے رہنے کا ذکر ہے، لیکن اس کی سند میں عبیداللہ بن عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن موہب ضعیف ہے اور اس کا چچا عبیداللہ بن عبداللہ بن موہب مجہول ہے۔ دیکھیے: (تھذیب الکمال: ۸۰/۱۹) شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف ابن ماجہ میں ضعیف کہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ معدود کی صراحت درست نہیں ہے۔ معدود مبہم رکھا گیا ہے۔ عربی میں اس طریقے سے زجرو توبیخ اور معاملے کی سنگینی کا بیان مقصود ہوتا ہے بہرحال مقصود عدد نہیں کثرت اور مبالغہ ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲) چالیس یا سو سال تک رکے رہنے کی بات بھی یفرض محال ہے ورنہ اتنی دیر تک ایک انسان کا نماز پڑھنا ایک جگہ رکے رہنا قابل تصور نہیں۔ (۱) اس روایت میں چالیس کے بعد سال کا ذکر نہیں۔ مسند بزار میں خریف کا لفظ ہے، اس کے معنی ’’سال‘‘ کے ہیں لیکن یہ لفظ سنداً ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (تمام المنۃ للألباني، ص:۳۰۲، و فتح الباري: ۵۸۵/۱، حدیث: ۵۱۰) ایک حدیث میں [مائۃ عام] ’’سو سال‘‘ کھڑے رہنے کا ذکر ہے، لیکن اس کی سند میں عبیداللہ بن عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن موہب ضعیف ہے اور اس کا چچا عبیداللہ بن عبداللہ بن موہب مجہول ہے۔ دیکھیے: (تھذیب الکمال: ۸۰/۱۹) شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف ابن ماجہ میں ضعیف کہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ معدود کی صراحت درست نہیں ہے۔ معدود مبہم رکھا گیا ہے۔ عربی میں اس طریقے سے زجرو توبیخ اور معاملے کی سنگینی کا بیان مقصود ہوتا ہے بہرحال مقصود عدد نہیں کثرت اور مبالغہ ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲) چالیس یا سو سال تک رکے رہنے کی بات بھی یفرض محال ہے ورنہ اتنی دیر تک ایک انسان کا نماز پڑھنا ایک جگہ رکے رہنا قابل تصور نہیں۔