سنن النسائي - حدیث 742

كِتَابُ الْمَسَاجِدِ الصَّلَاةُ عَلَى الْحِمَارِ حسن صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى حِمَارٍ وَهُوَ رَاكِبٌ إِلَى خَيْبَرَ وَالْقِبْلَةُ خَلْفَهُ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا تَابَعَ عَمْرَو بْنَ يَحْيَى عَلَى قَوْلِهِ يُصَلِّي عَلَى حِمَارٍ وَحَدِيثُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَنَسٍ الصَّوَابُ مَوْقُوفٌ وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 742

کتاب: مسجد سے متعلق احکام و مسائل گدھے پر نماز پڑھنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سےمنقول ہے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر سوار نماز پڑھتے دیکھا۔ آپ خیبر کی طرف جا رہے تھے جب کہ قبلہ آپ کی پشت کی جانب تھا۔ امام ابو عبدالرحمٰن (نسائی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ کسی اور راوی نے [ی صلی علی حمار] کے الفاظ بیان کرنے میں عمرو بن یحیی کی موافقت کی ہو۔ صحیح بات یہ ہے کہ یحیی بن سعید کی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اس مفہوم کی روایت موقوف ہے۔ واللہ أعلم۔
تشریح : (۱) بات یہ ہے کہ دوسرے راوی گدھے کی بجائے اونٹ کا ذکر کرتے ہیں، صرف عمرو بن یحیی گدھے کا ذکر کرتے ہیں۔ (یہ بحث حدیث: ۷۴۱ سے متعلق ہے) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عمرو ثقہ راوی ہے۔ ہوسکتا ہے کبھی آپ گدھے پر سوار ہوں، کبھی اونٹ پر، جب کہ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ عمرو کی روایت شاذ ہے، گدھے کا ذکر صحیح نہیں۔ حدیث: ۷۴۲ میں بھی اگرچہ گدھے کا ذکر ہے مگر اس کے بارے میں امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ دراصل حضرت انس رضی اللہ عنہ کا اپنا فعل ہے، یعنی وہ خود گدھے پر سوار نفل نماز پڑھ رہے تھے۔ راوی نے غلطی سے اسے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کو [ی صلی علی حمار] کے اضافے کے ساتھ ناقابل حجت سمجھنا یقیناً محل نظر ہے کیونکہ اس میں دیگر ثقات راویوں کی کون سی مخالفت ہے بلکہ اس میں تو ایک زائد امر ہے۔ پھر عمرو نامی راوی بھی ثقہ ہے۔ اور ثقہ کی زیادتی، جبکہ دیگر روایات کے منافی نہ ہو، قابل قبول ہوتی ہے، نیز یہ حدیث امام مسلم رحمہ اللہ کے نزدیک بھی صحیح ہے۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الصلاۃ في الرحال في المطر، حدیث: (۳۵) ۷۷۰) مزید برآں یہ کہ اس حدیث کی تائید حضرت انس بن مالک کی حدیث سے بھی ہوتی ہے، جسے اصطلاح میں شاہد کہا جاتا ہے۔ پھر ان میں تعارض اس لیے بھی نہیں رہتا کہ ممکن ہے کبھی گدھے پر سوار ہوں اور کبھی اونٹ پر، گویا یہ دو مختلف اوقات کی بات ہے جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے، اس لیے روایت کو ناقابل حجت قرار دینے کی بجائے، جبکہ راوی بھی ثقہ ہو، تطبیق دینا ہی بہتر ہے۔ پھر یہ اعتراض کہ حدیث انس کا مرفوع ہونا درست نہیں اور وجہ یہ ہے کہ یحیی بن سعید کے سوا دیگر رواۃ اسے حضرت انس سے موقوفاً ذکر کرتے ہیں جیسا کہ انس بن سیرین کی روایت میں ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: ۷۰۲) یہ بھی محل نظر ہے کیونکہ اگر ایک نے موقوفاً بیان کیا ہو اور دوسرے نے مرفوعاً اور بیان کرنے والا ثقہ ہو تو یہ کوئی قابل جرح بات نہیں بلکہ ایک مزید فائدہ ہے۔ گویا یہ روایت موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح ثابت ہے اور یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ یوں سمجھئے، اگر ایک روایت مرسلاا منقول ہو اور دوسری موصولاً، یا ایک منقطع ہو دوسری متصل، کیا آپس میں ان کا کوئی تضاد ہے؟ قطعاً نہیں بلکہ متصل اور موصول ہی کو قبول کیا جائے گا۔ یہاں بھی ایسے ہی ہے بلکہ اس موقوف روایت کا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوع شاہد بھی ملتا ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔ بہرحال حق یہی ہے کہ دونوں احادیث صحیح ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی دونوں کو صحیح قرار دیا ہے بلکہ انھوں نے ان روایات کو ایک دوسری کا شاہد بنایا ہے۔ دیکھیے: (فتح الباري: ۵۷۶/۲، حدیث: ۱۱۰۰) شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی ان دونوں روایات کو صحیح کہا ہے۔ دیکھیے: (صحیح سنن النسائي) (۲) یہ نفل نماز کی بات ہے۔ چونکہ نفل ہر وقت پڑھے جا سکتے ہیں، لہٰذا نفل کے لیے سہولتیں رکھی گئی ہیں کہ کھڑا ہوکر نہ پڑھنا چاہے تو بیٹھ کر پڑھ لے، اتر کر نہیں پڑھ سکتا تو سواری ہی پر پڑھ لے اور رکوع اور سجدہ کی بجائے اشارہ ہی کرلے۔ (۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ خیبر کی طرف تشریف لے جا رہے تھے اور خیبر شمال کی جانب ہے جب کہ مدینہ منورہ سے قبلہ جنوب کی جانب ہے۔ (۱) بات یہ ہے کہ دوسرے راوی گدھے کی بجائے اونٹ کا ذکر کرتے ہیں، صرف عمرو بن یحیی گدھے کا ذکر کرتے ہیں۔ (یہ بحث حدیث: ۷۴۱ سے متعلق ہے) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عمرو ثقہ راوی ہے۔ ہوسکتا ہے کبھی آپ گدھے پر سوار ہوں، کبھی اونٹ پر، جب کہ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ عمرو کی روایت شاذ ہے، گدھے کا ذکر صحیح نہیں۔ حدیث: ۷۴۲ میں بھی اگرچہ گدھے کا ذکر ہے مگر اس کے بارے میں امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ دراصل حضرت انس رضی اللہ عنہ کا اپنا فعل ہے، یعنی وہ خود گدھے پر سوار نفل نماز پڑھ رہے تھے۔ راوی نے غلطی سے اسے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کو [ی صلی علی حمار] کے اضافے کے ساتھ ناقابل حجت سمجھنا یقیناً محل نظر ہے کیونکہ اس میں دیگر ثقات راویوں کی کون سی مخالفت ہے بلکہ اس میں تو ایک زائد امر ہے۔ پھر عمرو نامی راوی بھی ثقہ ہے۔ اور ثقہ کی زیادتی، جبکہ دیگر روایات کے منافی نہ ہو، قابل قبول ہوتی ہے، نیز یہ حدیث امام مسلم رحمہ اللہ کے نزدیک بھی صحیح ہے۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الصلاۃ في الرحال في المطر، حدیث: (۳۵) ۷۷۰) مزید برآں یہ کہ اس حدیث کی تائید حضرت انس بن مالک کی حدیث سے بھی ہوتی ہے، جسے اصطلاح میں شاہد کہا جاتا ہے۔ پھر ان میں تعارض اس لیے بھی نہیں رہتا کہ ممکن ہے کبھی گدھے پر سوار ہوں اور کبھی اونٹ پر، گویا یہ دو مختلف اوقات کی بات ہے جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے، اس لیے روایت کو ناقابل حجت قرار دینے کی بجائے، جبکہ راوی بھی ثقہ ہو، تطبیق دینا ہی بہتر ہے۔ پھر یہ اعتراض کہ حدیث انس کا مرفوع ہونا درست نہیں اور وجہ یہ ہے کہ یحیی بن سعید کے سوا دیگر رواۃ اسے حضرت انس سے موقوفاً ذکر کرتے ہیں جیسا کہ انس بن سیرین کی روایت میں ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: ۷۰۲) یہ بھی محل نظر ہے کیونکہ اگر ایک نے موقوفاً بیان کیا ہو اور دوسرے نے مرفوعاً اور بیان کرنے والا ثقہ ہو تو یہ کوئی قابل جرح بات نہیں بلکہ ایک مزید فائدہ ہے۔ گویا یہ روایت موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح ثابت ہے اور یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ یوں سمجھئے، اگر ایک روایت مرسلاا منقول ہو اور دوسری موصولاً، یا ایک منقطع ہو دوسری متصل، کیا آپس میں ان کا کوئی تضاد ہے؟ قطعاً نہیں بلکہ متصل اور موصول ہی کو قبول کیا جائے گا۔ یہاں بھی ایسے ہی ہے بلکہ اس موقوف روایت کا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوع شاہد بھی ملتا ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔ بہرحال حق یہی ہے کہ دونوں احادیث صحیح ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی دونوں کو صحیح قرار دیا ہے بلکہ انھوں نے ان روایات کو ایک دوسری کا شاہد بنایا ہے۔ دیکھیے: (فتح الباري: ۵۷۶/۲، حدیث: ۱۱۰۰) شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی ان دونوں روایات کو صحیح کہا ہے۔ دیکھیے: (صحیح سنن النسائي) (۲) یہ نفل نماز کی بات ہے۔ چونکہ نفل ہر وقت پڑھے جا سکتے ہیں، لہٰذا نفل کے لیے سہولتیں رکھی گئی ہیں کہ کھڑا ہوکر نہ پڑھنا چاہے تو بیٹھ کر پڑھ لے، اتر کر نہیں پڑھ سکتا تو سواری ہی پر پڑھ لے اور رکوع اور سجدہ کی بجائے اشارہ ہی کرلے۔ (۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ خیبر کی طرف تشریف لے جا رہے تھے اور خیبر شمال کی جانب ہے جب کہ مدینہ منورہ سے قبلہ جنوب کی جانب ہے۔