سنن النسائي - حدیث 738

كِتَابُ الْمَسَاجِدِ الصَّلَاةُ عَلَى الْحَصِيرِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْتِيَهَا فَيُصَلِّيَ فِي بَيْتِهَا فَتَتَّخِذَهُ مُصَلًّى فَأَتَاهَا فَعَمِدَتْ إِلَى حَصِيرٍ فَنَضَحَتْهُ بِمَاءٍ فَصَلَّى عَلَيْهِ وَصَلَّوْا مَعَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 738

کتاب: مسجد سے متعلق احکام و مسائل چٹائی پر نماز پڑھنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ ہمارے گھر تشریف لائیں اور نماز پڑھیں تاکہ ہم (تبرکاً) اس جگہ کو نماز کے لیے مقرر کرلیں۔ آپ تشریف لائے تو انھوں (ام سلیم ؓ) نے ایک چٹائی اٹھائی اور اسے پانی سے گیلا کیا، پھر آپ نے نماز پڑھی اور سب (گھر والوں) نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔
تشریح : (۱) تبرک کی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ (دیکھیے، حدیث: ۷۰۲) (۲) ’’حصیر‘‘ کھجور کی چٹائی کو کہتے ہیں۔ اس پر پانی ڈالنا صفائی یا نرم کرنے کے لیے تھا۔ (۳) باب کا مقصد یہ ہے کہ زمین پر نماز پڑھنا ضروری نہیں اور نہ ماتھے کو مٹی کا لگنا ہی شرط ہے جیسا کہ بعض صوفیوں کا خیال ہے بلکہ کسی بھی مطمئن اور پاک چیز پر نماز پڑھی جا سکتی ہے، وہ کپڑا ہو یا لکڑی، پتے ہوں یا چمڑا جیسا کہ آئنندہ روایات سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ (۴) سورۂ بنی اسرائیل، آیت: ۸ میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وجعلنا جھنم للکافرین حصیرا) ’’اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنایا ہے۔‘‘ اس میں حصیر سے مراد قید خانہ ہے نہ کہ وہ چٹائی جو نماز کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ گویا اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید بھی ہوتی ہے جو چٹائی وغیرہ کو نماز کے لیے مکروہ سمجھتے ہیں۔ مزید برپں یہ کہ ممکن ہے امام صاب اس قسم کی روایات سے جن میں چٹائی پر نماز پڑھنے کی مشروعیت ہے، اس روایت کے ضعف یا شذوذ کی طرف اشارہ کر رہے ہوں جس میں اس کے استعمال کی نفی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائي: ۲۷۲/۹) (۱) تبرک کی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ (دیکھیے، حدیث: ۷۰۲) (۲) ’’حصیر‘‘ کھجور کی چٹائی کو کہتے ہیں۔ اس پر پانی ڈالنا صفائی یا نرم کرنے کے لیے تھا۔ (۳) باب کا مقصد یہ ہے کہ زمین پر نماز پڑھنا ضروری نہیں اور نہ ماتھے کو مٹی کا لگنا ہی شرط ہے جیسا کہ بعض صوفیوں کا خیال ہے بلکہ کسی بھی مطمئن اور پاک چیز پر نماز پڑھی جا سکتی ہے، وہ کپڑا ہو یا لکڑی، پتے ہوں یا چمڑا جیسا کہ آئنندہ روایات سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ (۴) سورۂ بنی اسرائیل، آیت: ۸ میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وجعلنا جھنم للکافرین حصیرا) ’’اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنایا ہے۔‘‘ اس میں حصیر سے مراد قید خانہ ہے نہ کہ وہ چٹائی جو نماز کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ گویا اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید بھی ہوتی ہے جو چٹائی وغیرہ کو نماز کے لیے مکروہ سمجھتے ہیں۔ مزید برپں یہ کہ ممکن ہے امام صاب اس قسم کی روایات سے جن میں چٹائی پر نماز پڑھنے کی مشروعیت ہے، اس روایت کے ضعف یا شذوذ کی طرف اشارہ کر رہے ہوں جس میں اس کے استعمال کی نفی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائي: ۲۷۲/۹)