كِتَابُ الْمَسَاجِدِ الْأَمْرُ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْجُلُوسِ فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ
کتاب: مسجد سے متعلق احکام و مسائل
مسجد میں داخل ہونے کے بعد بیٹھنے سے پہلے نماز پڑھنے کا حکم
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھنی چاہئیں۔‘‘
تشریح :
(۱) ان دو رکعتوں کی مشروعیت واضح ہے۔ اس نماز کو تحیۃ المسجد کہتے ہیں۔ چونکہ مسجد نماز کے لیے بنائی گئی ہے، لہٰذا مسجد میں آنے والا شخص سب سے پہلے نماز پڑھے۔ اوقات مکروہہ میں داخل ہو تو امام شافعی رحمہ اللہ پھر بھی دو رکعت پڑھنا جائز سمجھتے ہیں۔ وہ صلاۃ سبی (جس نماز کا کوئی خاص سبب ہو) کو اوقات مکروہہ میں جائز سمجھتے ہیں۔ مطلق نفل منع ہیں، محدثین کی اکثریت یہی رائے رکھتی ہے جب کہ علمائے احناف مطلق نہی کے پیش نظر ہر قسم کی نفل نماز کو ان اوقات میں منع سمجھتے ہیں۔ ظاہر الفاظ ان کی تائید کرتے ہیں مگر امام شافعی رحمہ اللہ کے قول پر عمل کرنے سے تمام احادیث قابل عمل ٹھہرتی ہیں اور مختلف روایات میں واقع تعارض اور اختلاف بھی ختم ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲) ’’بیٹھنے سے پہلے‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیٹھنے کے بعد نہ پڑھے بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ داخل ہوتے ہی پڑھے۔ چونکہ مقصد یہ ہے کہ مسجد میں آکر نماز پڑھے، لہٰذا کوئی ضروری نہیں کہ مخصوص نفل ہی پڑھے بلکہ فرض، سنت، نفل جو بھی پڑھ لے کر کفایت ہو جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کے وقت مسجد میں تشریف لاتے تھے۔ کہیں منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ تحیۃ المسسجد پڑھے ہوں۔
(۱) ان دو رکعتوں کی مشروعیت واضح ہے۔ اس نماز کو تحیۃ المسجد کہتے ہیں۔ چونکہ مسجد نماز کے لیے بنائی گئی ہے، لہٰذا مسجد میں آنے والا شخص سب سے پہلے نماز پڑھے۔ اوقات مکروہہ میں داخل ہو تو امام شافعی رحمہ اللہ پھر بھی دو رکعت پڑھنا جائز سمجھتے ہیں۔ وہ صلاۃ سبی (جس نماز کا کوئی خاص سبب ہو) کو اوقات مکروہہ میں جائز سمجھتے ہیں۔ مطلق نفل منع ہیں، محدثین کی اکثریت یہی رائے رکھتی ہے جب کہ علمائے احناف مطلق نہی کے پیش نظر ہر قسم کی نفل نماز کو ان اوقات میں منع سمجھتے ہیں۔ ظاہر الفاظ ان کی تائید کرتے ہیں مگر امام شافعی رحمہ اللہ کے قول پر عمل کرنے سے تمام احادیث قابل عمل ٹھہرتی ہیں اور مختلف روایات میں واقع تعارض اور اختلاف بھی ختم ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲) ’’بیٹھنے سے پہلے‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیٹھنے کے بعد نہ پڑھے بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ داخل ہوتے ہی پڑھے۔ چونکہ مقصد یہ ہے کہ مسجد میں آکر نماز پڑھے، لہٰذا کوئی ضروری نہیں کہ مخصوص نفل ہی پڑھے بلکہ فرض، سنت، نفل جو بھی پڑھ لے کر کفایت ہو جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کے وقت مسجد میں تشریف لاتے تھے۔ کہیں منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ تحیۃ المسسجد پڑھے ہوں۔