سنن النسائي - حدیث 720

كِتَابُ الْمَسَاجِدِ تَشْبِيكُ الْأَصَابِعِ فِي الْمَسْجِدِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَعَلْقَمَةُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ لَنَا أَصَلَّى هَؤُلَاءِ قُلْنَا لَا قَالَ قُومُوا فَصَلُّوا فَذَهَبْنَا لِنَقُومَ خَلْفَهُ فَجَعَلَ أَحَدَنَا عَنْ يَمِينِهِ وَالْآخَرَ عَنْ شِمَالِهِ فَصَلَّى بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ فَجَعَلَ إِذَا رَكَعَ شَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ وَجَعَلَهَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ وَقَالَ هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 720

کتاب: مسجد سے متعلق احکام و مسائل مسجد میں انگلیوں میں انگلیاں پھنسانا حضرت اسود سے روایت ہے کہ میں اور علقمہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے۔ آپ نے ہم سے پوچھا: ان لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے کہا: نہیں۔ فرمایا: اٹھو اور نماز پڑھو۔ ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہونے لگے تو آپ نے ہم میں سے ایک کو اپنی دائیں اوردوسرے کو بائیں طرف کھڑا کر لیا اور انھوں نے بغیر اذان و اقامت کے نماز پڑھائی اور جب رکوع کرتے تھے تو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسا کر گھٹنوں کے درمیان رکھ لیتے تھے۔ پھر فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
تشریح : (۱) امام صاحب کا تشبیک پر استدلال واضح ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے تشبیک نماز کے اندر کی۔ اور نماز عموماً مسجد میں پڑھی جاتی ہے، لہٰذا مسجد میں تشبیک جائز ہے، البتہ اس پر اعتراض ہے کہ رکوع میں تشبیک کرکے دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں کے درمیان رکھنا جسے علمی اصطلاح میں تطبیق کہتے ہیں، بالاتفاق منسوخ ہے، لہٰذا منسوخ سے استدلال کیسے ہوسکتا ہے جس طرح کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نسخ رکوع یا نماز کے اندر ہے، آگے پیچھے مسجد میں منع نہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس نسخ کا علم نہ ہوا جبکہ دیگر صحابہ، مثلاً: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے صراحتاً اس کا نسخ ثابت ہے۔ دیکھیے، (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: ۵۲۵) یہاں ایک اور قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھا ہو یا گھر سے نماز کی نیت سے نکلا ہو تو کیا تشبیک کرسکتا ہے؟ احادیث کو دیکھا جائے تو کچھ احادیث میں اس کی ممانعت ہے اور کچھ میں اس کا اثبات اور جواز ہے، یعنی بعض مواقع پر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تشبیک کی ہے۔ اس کی تطبیق یہ ہے، جس کی وضاحت ابن منیر نے فرمائی ہے کہ بلاوجہ یا بلاضرورت ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنا ممنوع ہے کیونکہ یہ عمل عبث اور بے فائدہ ہے۔ اگر تعلیم و تفہیم یا تمثل کی خاطر ہوو تو درست ہے۔ اور جہاں کہیں احادیث میں اس کا اثبات ہے، وہاں یہی مقصود ہے۔ بعض کے بقول اگر نماز میں ہو یا نماز کا قصد ہو تو منع ہے۔ ممانعت کی احادیث کو اسی پر محمول کیا جائے گا۔ لیکن اگر نماز کا قصد نہ ہو بلکہ ویسے ہی مسجد میں بیٹھا ہو تو اس طرح تشبیک کرلینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ حرمت کی ایک خاص حالت یا خاص وقت ہے، لہٰذا اوقات نماز کے علاوہ جب بھی چاہے، جائز ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: ۷۳۲/۱، حدیث: ۴۸۱) تشبیک کی حرمت پر دلالت کرنے والی بعض روایات کو کچھ علماء نے کمزور قرار دیا ہے لیکن ان کی حجیت و صحت ہی راحج ہے۔ دیکھیے: (صحیح سنن أبي داود (فصل) للألباني: ۹۳/۳) (۳) دو مقتدیوں کاامام کے دائیں بائیں کھڑا ہونا بھی منسوخ ہے۔ اس کا نسخ بھی متفق علیہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت انس رضی اللہ عنہ کے گھر کے اندر نماز پڑھنا اس کی دلیل ہے جس میں آپ نے انس اور ان کے بھائی کو اپنے پیچھے اور ان کی والدہ یا دادی کو ان کے پیچھے کھڑا کیا تھا۔ (صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث: ۳۸۰، و صحیح مسلم، المساجد، حدیث: ۶۵۸) (۴) مسجد میں اذان اور جماعت ہوچکی ہو تو پھر مسجد کے اندر یا قریبی محلے میں بغیر اذان و اقامت کے نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اصل اذان و اقامت کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان اصحاب وغیرہ کا موقف یہی ہے کہ جب اذان اور اقامت کے ساتھ نماز باجماعت ہوچکی ہو تو اس کے بعد آنے والے لوگ اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھیں، یعنی انھیں پہلے والے لوگوں کی اذان اور اقامت ہی کافی ہے۔ اب وہ جماعت کرائیں تو بغیر اقامت کے کرائیں جبکہ جمہور علمائے سلف اور خلف کا موقف اس کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے والے لوگوں کی اقامت کافی نہیں ہوگی بلکہ ان کے حق میں اقامت کہنا مسنون ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۂ العقبی، شرح سنن النسائي: ۶۹/۹) امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا اثر معلقاً ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں: [جاہ أنس الی مسجد قد صلی فیہ فاذن و اقام و صلی جماعۃ] (صحیح البخاري، الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، رقم الباب: ۳۰) ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک ایسی مسجد میں تشریف لائے جس میں نماز پڑھی جا چکی تھی تو انھوں نے اذان اور اقامت کہی اور باجماعت نماز پڑھی۔‘‘ مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں یہ اثر موصولاً منقول ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند صحیح قرار دی ہے۔ دیکھیے: (مختصر صحیح البخاري، بتحقیق الألباني: ۲۰۹/۱) (۱) امام صاحب کا تشبیک پر استدلال واضح ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے تشبیک نماز کے اندر کی۔ اور نماز عموماً مسجد میں پڑھی جاتی ہے، لہٰذا مسجد میں تشبیک جائز ہے، البتہ اس پر اعتراض ہے کہ رکوع میں تشبیک کرکے دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں کے درمیان رکھنا جسے علمی اصطلاح میں تطبیق کہتے ہیں، بالاتفاق منسوخ ہے، لہٰذا منسوخ سے استدلال کیسے ہوسکتا ہے جس طرح کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نسخ رکوع یا نماز کے اندر ہے، آگے پیچھے مسجد میں منع نہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس نسخ کا علم نہ ہوا جبکہ دیگر صحابہ، مثلاً: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے صراحتاً اس کا نسخ ثابت ہے۔ دیکھیے، (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: ۵۲۵) یہاں ایک اور قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھا ہو یا گھر سے نماز کی نیت سے نکلا ہو تو کیا تشبیک کرسکتا ہے؟ احادیث کو دیکھا جائے تو کچھ احادیث میں اس کی ممانعت ہے اور کچھ میں اس کا اثبات اور جواز ہے، یعنی بعض مواقع پر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تشبیک کی ہے۔ اس کی تطبیق یہ ہے، جس کی وضاحت ابن منیر نے فرمائی ہے کہ بلاوجہ یا بلاضرورت ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنا ممنوع ہے کیونکہ یہ عمل عبث اور بے فائدہ ہے۔ اگر تعلیم و تفہیم یا تمثل کی خاطر ہوو تو درست ہے۔ اور جہاں کہیں احادیث میں اس کا اثبات ہے، وہاں یہی مقصود ہے۔ بعض کے بقول اگر نماز میں ہو یا نماز کا قصد ہو تو منع ہے۔ ممانعت کی احادیث کو اسی پر محمول کیا جائے گا۔ لیکن اگر نماز کا قصد نہ ہو بلکہ ویسے ہی مسجد میں بیٹھا ہو تو اس طرح تشبیک کرلینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ حرمت کی ایک خاص حالت یا خاص وقت ہے، لہٰذا اوقات نماز کے علاوہ جب بھی چاہے، جائز ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: ۷۳۲/۱، حدیث: ۴۸۱) تشبیک کی حرمت پر دلالت کرنے والی بعض روایات کو کچھ علماء نے کمزور قرار دیا ہے لیکن ان کی حجیت و صحت ہی راحج ہے۔ دیکھیے: (صحیح سنن أبي داود (فصل) للألباني: ۹۳/۳) (۳) دو مقتدیوں کاامام کے دائیں بائیں کھڑا ہونا بھی منسوخ ہے۔ اس کا نسخ بھی متفق علیہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت انس رضی اللہ عنہ کے گھر کے اندر نماز پڑھنا اس کی دلیل ہے جس میں آپ نے انس اور ان کے بھائی کو اپنے پیچھے اور ان کی والدہ یا دادی کو ان کے پیچھے کھڑا کیا تھا۔ (صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث: ۳۸۰، و صحیح مسلم، المساجد، حدیث: ۶۵۸) (۴) مسجد میں اذان اور جماعت ہوچکی ہو تو پھر مسجد کے اندر یا قریبی محلے میں بغیر اذان و اقامت کے نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اصل اذان و اقامت کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان اصحاب وغیرہ کا موقف یہی ہے کہ جب اذان اور اقامت کے ساتھ نماز باجماعت ہوچکی ہو تو اس کے بعد آنے والے لوگ اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھیں، یعنی انھیں پہلے والے لوگوں کی اذان اور اقامت ہی کافی ہے۔ اب وہ جماعت کرائیں تو بغیر اقامت کے کرائیں جبکہ جمہور علمائے سلف اور خلف کا موقف اس کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے والے لوگوں کی اقامت کافی نہیں ہوگی بلکہ ان کے حق میں اقامت کہنا مسنون ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۂ العقبی، شرح سنن النسائي: ۶۹/۹) امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا اثر معلقاً ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں: [جاہ أنس الی مسجد قد صلی فیہ فاذن و اقام و صلی جماعۃ] (صحیح البخاري، الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، رقم الباب: ۳۰) ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک ایسی مسجد میں تشریف لائے جس میں نماز پڑھی جا چکی تھی تو انھوں نے اذان اور اقامت کہی اور باجماعت نماز پڑھی۔‘‘ مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں یہ اثر موصولاً منقول ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند صحیح قرار دی ہے۔ دیکھیے: (مختصر صحیح البخاري، بتحقیق الألباني: ۲۰۹/۱)