سنن النسائي - حدیث 712

كِتَابُ الْمَسَاجِدِ إِدْخَالُ الصِّبْيَانِ الْمَسَاجِدَ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا قَتَادَةَ يَقُولُ بَيْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُ أُمَامَةَ بِنْتَ أَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيعِ وَأُمُّهَا زَيْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ صَبِيَّةٌ يَحْمِلُهَا فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ عَلَى عَاتِقِهِ يَضَعُهَا إِذَا رَكَعَ وَيُعِيدُهَا إِذَا قَامَ حَتَّى قَضَى صَلَاتَهُ يَفْعَلُ ذَلِكَ بِهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 712

کتاب: مسجد سے متعلق احکام و مسائل بچوں کو مسجد وں میں لے کے جانا حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ مسجد میں بیٹھے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی نواسی) امامہ بنت ابو العاص بن ربیع کو اٹھائے ہوئے ہمارے پاس آئے۔ وہ ابھی بچی تھی۔ ان کی والدہ زینب بنت رسول اللہ () تھیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی جب کہ وہ بچی آپ کے کندھے پر تھی۔ آپ جب رکوع فرماتے تو بچی کو اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے دوبارہ اٹھا لیتے حتی کہ آپ نے اسی طرح نماز مکمل کی۔
تشریح : (۱) بعض علماء کا کہنا ہے کہ ممکن ہے گھر میں کوئی بچی اٹھانےوالا نہ ہو یا بچی ضد کرتی ہو یا آپ نے امت کو تنگی سے بچانے کے لیے ایسے کیا ہو کیونکہ کسی مجبوری پیش آسکتی ہے۔ بہرصورت وجہ جو بھی ہو، اس حدیث سے اس کا جواز ہی ثابت ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ آپ نے یہ عمل بیان جواز کے لیے کیا ہے تاکہ اس قسم کے موقع پر امت کا کوئی فرد تنگی یا حرج میں مبتلا نہ ہو کیونکہ حدیث میں اس قسم کی کوئی وجہ بیان نہیں ہوئی۔ رہا یہ کہ عمل قلیل جائز ہے اور کثیر ناجائز، تو اس موقف کی بھی احادیث سے تائید نہیں ہوتی جس طرح کہ یہاں ہے۔ ہاں! ضرورت کے پیش نظر یا اصلاح نماز کے لیے عمل کثیر میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ مالکیہ فرض نماز میں اس کے قائل نہیں، حالانکہ مجبوری تو فرض نماز میں بھی پیش آسکتی ہے، نیز یہ فرض نماز ہی تھی بلکہ بعض روایات میں صراحت ہے کہ وہ ظہر یا عصر کی نماز تھی۔ بہرصورت بلاوجہ ایسے نہیں کرنا چاہیے، مجبوری ہو تو کم سے کم فالتو حرکت کے ساتھ ایسے کیا جا سکتا ہے۔ (۲) مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہووا کہ مسجد میں بچوں کو لایا جا سکتا ہے، ترجمۃ الباب سے امام صاحب رحمہ اللہ کا یہی مقصد ہے، بلکہ حسب ضرورت دوران نماز میں اٹھایا بھی جا سکتا ہے۔ اور وہ حدیث جس میں بچوں کو مساجد میں لے جانے سے منع کیا گیا ہے، ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجہ، حدیث: ۷۵۰، وضعیف الترغیب و الترھیب للألباني، حدیث: ۱۸۶) (۱) بعض علماء کا کہنا ہے کہ ممکن ہے گھر میں کوئی بچی اٹھانےوالا نہ ہو یا بچی ضد کرتی ہو یا آپ نے امت کو تنگی سے بچانے کے لیے ایسے کیا ہو کیونکہ کسی مجبوری پیش آسکتی ہے۔ بہرصورت وجہ جو بھی ہو، اس حدیث سے اس کا جواز ہی ثابت ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ آپ نے یہ عمل بیان جواز کے لیے کیا ہے تاکہ اس قسم کے موقع پر امت کا کوئی فرد تنگی یا حرج میں مبتلا نہ ہو کیونکہ حدیث میں اس قسم کی کوئی وجہ بیان نہیں ہوئی۔ رہا یہ کہ عمل قلیل جائز ہے اور کثیر ناجائز، تو اس موقف کی بھی احادیث سے تائید نہیں ہوتی جس طرح کہ یہاں ہے۔ ہاں! ضرورت کے پیش نظر یا اصلاح نماز کے لیے عمل کثیر میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ مالکیہ فرض نماز میں اس کے قائل نہیں، حالانکہ مجبوری تو فرض نماز میں بھی پیش آسکتی ہے، نیز یہ فرض نماز ہی تھی بلکہ بعض روایات میں صراحت ہے کہ وہ ظہر یا عصر کی نماز تھی۔ بہرصورت بلاوجہ ایسے نہیں کرنا چاہیے، مجبوری ہو تو کم سے کم فالتو حرکت کے ساتھ ایسے کیا جا سکتا ہے۔ (۲) مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہووا کہ مسجد میں بچوں کو لایا جا سکتا ہے، ترجمۃ الباب سے امام صاحب رحمہ اللہ کا یہی مقصد ہے، بلکہ حسب ضرورت دوران نماز میں اٹھایا بھی جا سکتا ہے۔ اور وہ حدیث جس میں بچوں کو مساجد میں لے جانے سے منع کیا گیا ہے، ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجہ، حدیث: ۷۵۰، وضعیف الترغیب و الترھیب للألباني، حدیث: ۱۸۶)