سنن النسائي - حدیث 703

كِتَابُ الْمَسَاجِدِ نَبْشُ الْقُبُورِ وَاتِّخَاذُ أَرْضِهَا مَسْجِدًا صحيح أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ فِي عُرْضِ الْمَدِيِنَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَأَقَامَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ فَجَاءُوا مُتَقَلِّدِي سُيُوفِهِمْ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَدِيفَهُ وَمَلَأٌ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّى أَلْقَى بِفِنَاءِ أَبِي أَيُّوبَ وَكَانَ يُصَلِّي حَيْثُ أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ فَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ ثُمَّ أَمَرَ بِالْمَسْجِدِ فَأَرْسَلَ إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ فَجَاءُوا فَقَالَ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ هَذَا قَالُوا وَاللَّهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ أَنَسٌ وَكَانَتْ فِيهِ قُبُورُ الْمُشْرِكِينَ وَكَانَتْ فِيهِ خَرِبٌ وَكَانَ فِيهِ نَخْلٌ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ فَنُبِشَتْ وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَتْ وَبِالْخَرِبِ فَسُوِّيَتْ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ الْمَسْجِدِ وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ الْحِجَارَةَ وَجَعَلُوا يَنْقُلُونَ الصَّخْرَ وَهُمْ يَرْتَجِزُونَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ وَهُمْ يَقُولُونَ اللَّهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَةِ فَانْصُرْ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 703

کتاب: مسجد سے متعلق احکام و مسائل قبروں کو اکھیڑ کر ان جگہ مسجد بنانا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ مدینہ منورصہ کے ایک کنارے (قباء میں) ایک قبیلے میں اترے جنھیں بنو عمرو بن عوف کہا جاتا تھا۔ آپ ان میں چودہ راتیں ٹھہرے، پھر آپ نے بنو نجار کے سرداروں کی طرف پیغام بھیجا۔ وہ تلواریں لٹکائے ہوئے آئے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ میں اب بھی دیکھ رہا ہوں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر ہیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے بیٹھے ہیں اور بنونجارکے سردار آپ کے ارد گرد ہیں حتی کہ آپ نے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے پڑاؤ ڈالا۔ (شروع شروع میں) آپ کو جہاں نماز کا وقت ہو جاتا تھا، نماز پڑھ لیتے تھے۔ آپ بکریوں کے باڑوں میں بھی نماز پڑھتے رہے، پھر آپ کو مسجد بنانے کا حکم دیا گیا تو آپ نے بنو نجار کے سرداروں کو بلا بھیجا۔ وہ آئے تو آپ نے فرمایا: ’’اے بنو نجار! مجھ سے اپنے اس احاطے کا بھاؤ (قیمت) کرو۔‘‘ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم تو اس کی قیمت صرف اللہ تعالیٰ سے لیں گے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ ببیان کرتے ہیں کہ اس احاطے میں مشرکوں کی قبریں تھیں، کچھ ویرانہ (کھنڈر) تھا اور کھجوروں کے درخت تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو مشرکوں کی قبریں اکھیڑ دی گئیں، درخت کاٹ دیے گئے اور ویرانے ہموار کر دیے گئے۔ انھوں نے مسجد کے قبلے والی جانب کھجور کے درختوں کی لائن لگا دی اور پتھروں کی چوکھٹ بنائی۔ صحابۂ کرام  پتھر اٹھاتے تھے اور رجز (شعر) پڑھتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے۔ وہ (سب) کہتے تھے: اے اللہ! آخرت کی خیر کے سوا کوئی خیر نہیں۔ انصار و مہاجرین کی مدد فرما۔
تشریح : (۱) ہجرت کے موقع پر تشریف آوری کا ذکر ہے۔ آپ مدینہ منورہ کی مضافاتتی بستی قباء میں ٹھہرے تھے۔ آپ چند دن یہاں ٹھہرے رہے، چار یا چودہ دن۔ (۲) بنو نجار آپ کا ننھیال تھا۔ ہاشم کی بیوی اور عبدالمطلب کی والدہ اس قبیلے سے تھیں۔ آپ نے ان کی عزت افزائی کرنی چاہی، اس لیے انھیں پیغام بھیجا۔ (۳) بکریوں کے باڑے سے مراد وہ جگہ ہے جہاں بکریاں باندھی جاتی ہوں۔ (۴) یہ احاطہ آپ کی عا رضی رہائش گاہ کے بالکل سامنے تھا۔ آپ نے اسے مسجد لاور اپنی رہائش کے لیے مناسب خیال فرمایا۔ (۵) ’’مشرکین کی قبریں‘‘ چونکہ مشرکین کی قبریں قابل احترام نہیں ہیں، لہٰذا انھیں اکھیڑا جا سکتا ہے۔ یہ قبریں پرانی تھیں۔ ان کے قریبی ورثاء فوت ہوچکے ہوں گے ورنہ مسلمان ورثاء کی دل شکنی بھی منع ہے۔ روایات میں ہے کہ وہ احاطہ بنونجار کے دو یتیم بچوں کا تھا، اسی لیے آپ نے باوجود پیش کش کے بلاقیمت لینا منظور نہ کیا بلکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہہ کر ان بچوں کو قیمت دلوائی۔ (۶) ’’رجز‘‘ ایک قسم کا شعر اور ہم آہنگ سا کلام ہوتا ہے۔ اس میں وزن بھی ہوتا ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جنگ میں یا کسی خاص موقع پر اس قسم کا کلام پڑھ لیا تو آپ شاعرنہ بن گئے کیونکہ شاعر وہ ہوتا ہے جو شعر کو بطور پیشہ اور فن اپناتا ہے، نہ کہ وہ جو کبھی کبھار کئوی ہم آہنگ اور باوزن کلام بول لے جس میں شعر کہنے کا کوئی قصد بھی نہ ہو یا کسی کا کہا ہوا شعر پڑھ لے۔ (۱) ہجرت کے موقع پر تشریف آوری کا ذکر ہے۔ آپ مدینہ منورہ کی مضافاتتی بستی قباء میں ٹھہرے تھے۔ آپ چند دن یہاں ٹھہرے رہے، چار یا چودہ دن۔ (۲) بنو نجار آپ کا ننھیال تھا۔ ہاشم کی بیوی اور عبدالمطلب کی والدہ اس قبیلے سے تھیں۔ آپ نے ان کی عزت افزائی کرنی چاہی، اس لیے انھیں پیغام بھیجا۔ (۳) بکریوں کے باڑے سے مراد وہ جگہ ہے جہاں بکریاں باندھی جاتی ہوں۔ (۴) یہ احاطہ آپ کی عا رضی رہائش گاہ کے بالکل سامنے تھا۔ آپ نے اسے مسجد لاور اپنی رہائش کے لیے مناسب خیال فرمایا۔ (۵) ’’مشرکین کی قبریں‘‘ چونکہ مشرکین کی قبریں قابل احترام نہیں ہیں، لہٰذا انھیں اکھیڑا جا سکتا ہے۔ یہ قبریں پرانی تھیں۔ ان کے قریبی ورثاء فوت ہوچکے ہوں گے ورنہ مسلمان ورثاء کی دل شکنی بھی منع ہے۔ روایات میں ہے کہ وہ احاطہ بنونجار کے دو یتیم بچوں کا تھا، اسی لیے آپ نے باوجود پیش کش کے بلاقیمت لینا منظور نہ کیا بلکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہہ کر ان بچوں کو قیمت دلوائی۔ (۶) ’’رجز‘‘ ایک قسم کا شعر اور ہم آہنگ سا کلام ہوتا ہے۔ اس میں وزن بھی ہوتا ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جنگ میں یا کسی خاص موقع پر اس قسم کا کلام پڑھ لیا تو آپ شاعرنہ بن گئے کیونکہ شاعر وہ ہوتا ہے جو شعر کو بطور پیشہ اور فن اپناتا ہے، نہ کہ وہ جو کبھی کبھار کئوی ہم آہنگ اور باوزن کلام بول لے جس میں شعر کہنے کا کوئی قصد بھی نہ ہو یا کسی کا کہا ہوا شعر پڑھ لے۔