سنن النسائي - حدیث 702

كِتَابُ الْمَسَاجِدِ اتِّخَاذُ الْبِيَعِ مَسَاجِدَ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ مُلَازِمٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَدْرٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ عَنْ أَبِيهِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ خَرَجْنَا وَفْدًا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَايَعْنَاهُ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ وَأَخْبَرْنَاهُ أَنَّ بِأَرْضِنَا بِيعَةً لَنَا فَاسْتَوْهَبْنَاهُ مِنْ فَضْلِ طَهُورِهِ فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ وَتَمَضْمَضَ ثُمَّ صَبَّهُ فِي إِدَاوَةٍ وَأَمَرَنَا فَقَالَ اخْرُجُوا فَإِذَا أَتَيْتُمْ أَرْضَكُمْ فَاكْسِرُوا بِيعَتَكُمْ وَانْضَحُوا مَكَانَهَا بِهَذَا الْمَاءِ وَاتَّخِذُوهَا مَسْجِدًا قُلْنَا إِنَّ الْبَلَدَ بَعِيدٌ وَالْحَرَّ شَدِيدٌ وَالْمَاءَ يَنْشُفُ فَقَالَ مُدُّوهُ مِنْ الْمَاءِ فَإِنَّهُ لَا يَزِيدُهُ إِلَّا طِيبًا فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا بَلَدَنَا فَكَسَرْنَا بِيعَتَنَا ثُمَّ نَضَحْنَا مَكَانَهَا وَاتَّخَذْنَاهَا مَسْجِدًا فَنَادَيْنَا فِيهِ بِالْأَذَانِ قَالَ وَالرَّاهِبُ رَجُلٌ مِنْ طَيِّئٍ فَلَمَّا سَمِعَ الْأَذَانَ قَالَ دَعْوَةُ حَقٍّ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ تَلْعَةً مِنْ تِلَاعِنَا فَلَمْ نَرَهُ بَعْدُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 702

کتاب: مسجد سے متعلق احکام و مسائل گرجوں کو مساجد بنانا حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اپنی قوم کے وفد کے طورپر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ ہم نے آپ کی بیعت کی اور آپ کے ساتھ نمازیں پڑھیں اور ہم نے آپ کو بتایا کہ ہمارے علاقے میں ہمارا ایک گرجا ہے اور ہم نے آپ سے آپ کے وضو سے بچا ہوا پانی مانگا۔ آپ نے پانی منگوایا، پھر وضو کیا اور کلی کی، پھر اس (پانی) کو ایک چھاگل میں انڈیل دیا اور فرمایا: ’’جاؤ، جب تم اپنے علاقے میں پہنچو تو اپنے گرجے کو توڑ دینا اور اس کی جگہ یہ پانی چھڑک دینا اور اس جگہ کو مسجد بنا لینا۔‘‘ ہم نے کہا کہ ہمارا علاقہ بہت دور ہے اور گرمی سخت ہے۔ یہ پانی (وہاں پہنچتے پہنچتے) خشک ہو جائے گا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس میں اور پانی ملا لیا کرنا، بلاشبہ اس سے اس کی پاکیزگی ہی میں اضافہ ہوگا۔‘‘ ہم واپس چلے حتی کہ جب اپنے علاقے میں پہنچے تو ہم نے اپنا گرجا توڑ دیا، پھر اس کی جگہ وہ مبارک پانی چھڑکا اور اس جگہ مسجد بنالی، پھر ہم نے اس میں اذان کہی۔ اس گرجے میں قبیلۂ بنوطے کا ایک آدمی راہب (کے طورپر رہتا) تھا۔ جب اس نے اذان سنی تو کہنے لگا: یہ سچی دعوت ہے، پھر وہ ایک ٹیلے کی طرف گیا اور اس کے بعد ہمیں نظر نہ آیا۔
تشریح : (۱) یہ وفد ہجرت کے پہلے سال ہی آیا تھا۔ اس وقت مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی تھی۔ حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے بھی مسجد کو تعمیر میں حصہ لیا تھا اور گارا تیار کیا تھا۔ (۲) یہ گرجا ان لوگوں کا اپنا ہی تھا۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو انھوں نے اپنے گرجے کو مسجد میں بدل لیا۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ گرجا بھی اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا، البتہ ظاہری شکل و صورت مسجد جیسی بنانا ضروری ہے، نیز اگر اس میں بت یا مجسمے ہوں تو ان کا نکالنا ضروری ہے، تصویریں ہیں تو انھیں مٹانا ضروری ہے، البتہ اگر غیرمسلم مسلمان نہ ہوں تو ان کی عبادت گاہ کو زبردستی مسجد میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا کہ یہ آزادیٔ مذہب کے خلاف ہے۔ (۳) ’’وضو کا پانی‘‘ سے مراد وہ پانی بھی ہوسکتا ہے جو وضو میں استعمال ہوتا ہے۔ اس جگہ یہ معنی مناسب ہیں کیونکہ یہ پانی تبرک کے لیے تھا، لیکن حدیث مذکور میں [فضل طھورہ] کا لفظ ہے، اس لیے ترجمہ میں اس سے مراد وہ پانی لیا گیا ہے جس سے وضو کیا گیا اور کچھ برتن میں بچ گیا۔ اس میں چونکہ بار بار آپ کا دست مبارک داخل ہوتا رہا ہے، لہٰذا وہ بھی متبرک تھا۔ (۴) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ چیزوں سے تبرک تو متفق علیہ مسئلہ ہے۔ صحابۂ کرام  نے آپ کے لعاب مبارک، پسینے، خون، پیاری زلفوں، مقدس ناخنوں، لباس شریف، نعلین مبارک، وضو کے بابرکت پانی اور آپ کے جسم اور اس سے لگنے والی ہرچیز سے برکت حاصل کی، مگر کیا یہ سلوک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے؟ صحابہ و تابعین نے تو خلفائے راشدینِ تک کے ساتھ ایسا نہیں کیا۔ اس کے رواج تبع تابعین کے بعد اس وقت پڑا جب تصوف کا رواج ہوا، اس لیے اب ایسا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کسی کو قطعاً مقدس اور مبارک نہیں کہا جا سکتا۔ (۵) ’’اس سے پاکیزگی ہی میں اضافہ ہوگا۔‘‘ یعنی مزید پانی جو ملایا جائے گا، اس کے ملانے سے پہلے پانی کے تبرک میں کمی نہ آئے گی کیونکہ دوسرا پانی بھی تو پاک ہی ہے۔ پہلے تھوڑا پانی متبرک تھا، مزید ملانے سے زیادہ پانی متبرک ہو جائے گا۔ تبرک تو اس میں موجود ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ متبرک پانی، مثلاً: زمزم دور تک لے جایا جا سکتا ہے اوراس میں مزید پانی بھی ملایا جا سکتا ہے۔ (۶) معلوم ہوتا ہے کہ وہ راہب دعوت سنتے ہی مسلمان ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے غائب کر دیا۔ کئوی مصلحت ہو گی یا کہیں دور دراز نکل گیا ہوگا کیونکہ گرجا تو منہدم کر دیا گیا تھا۔ واللہ أعلم۔ (۱) یہ وفد ہجرت کے پہلے سال ہی آیا تھا۔ اس وقت مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی تھی۔ حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے بھی مسجد کو تعمیر میں حصہ لیا تھا اور گارا تیار کیا تھا۔ (۲) یہ گرجا ان لوگوں کا اپنا ہی تھا۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو انھوں نے اپنے گرجے کو مسجد میں بدل لیا۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ گرجا بھی اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا، البتہ ظاہری شکل و صورت مسجد جیسی بنانا ضروری ہے، نیز اگر اس میں بت یا مجسمے ہوں تو ان کا نکالنا ضروری ہے، تصویریں ہیں تو انھیں مٹانا ضروری ہے، البتہ اگر غیرمسلم مسلمان نہ ہوں تو ان کی عبادت گاہ کو زبردستی مسجد میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا کہ یہ آزادیٔ مذہب کے خلاف ہے۔ (۳) ’’وضو کا پانی‘‘ سے مراد وہ پانی بھی ہوسکتا ہے جو وضو میں استعمال ہوتا ہے۔ اس جگہ یہ معنی مناسب ہیں کیونکہ یہ پانی تبرک کے لیے تھا، لیکن حدیث مذکور میں [فضل طھورہ] کا لفظ ہے، اس لیے ترجمہ میں اس سے مراد وہ پانی لیا گیا ہے جس سے وضو کیا گیا اور کچھ برتن میں بچ گیا۔ اس میں چونکہ بار بار آپ کا دست مبارک داخل ہوتا رہا ہے، لہٰذا وہ بھی متبرک تھا۔ (۴) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ چیزوں سے تبرک تو متفق علیہ مسئلہ ہے۔ صحابۂ کرام  نے آپ کے لعاب مبارک، پسینے، خون، پیاری زلفوں، مقدس ناخنوں، لباس شریف، نعلین مبارک، وضو کے بابرکت پانی اور آپ کے جسم اور اس سے لگنے والی ہرچیز سے برکت حاصل کی، مگر کیا یہ سلوک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے؟ صحابہ و تابعین نے تو خلفائے راشدینِ تک کے ساتھ ایسا نہیں کیا۔ اس کے رواج تبع تابعین کے بعد اس وقت پڑا جب تصوف کا رواج ہوا، اس لیے اب ایسا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کسی کو قطعاً مقدس اور مبارک نہیں کہا جا سکتا۔ (۵) ’’اس سے پاکیزگی ہی میں اضافہ ہوگا۔‘‘ یعنی مزید پانی جو ملایا جائے گا، اس کے ملانے سے پہلے پانی کے تبرک میں کمی نہ آئے گی کیونکہ دوسرا پانی بھی تو پاک ہی ہے۔ پہلے تھوڑا پانی متبرک تھا، مزید ملانے سے زیادہ پانی متبرک ہو جائے گا۔ تبرک تو اس میں موجود ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ متبرک پانی، مثلاً: زمزم دور تک لے جایا جا سکتا ہے اوراس میں مزید پانی بھی ملایا جا سکتا ہے۔ (۶) معلوم ہوتا ہے کہ وہ راہب دعوت سنتے ہی مسلمان ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے غائب کر دیا۔ کئوی مصلحت ہو گی یا کہیں دور دراز نکل گیا ہوگا کیونکہ گرجا تو منہدم کر دیا گیا تھا۔ واللہ أعلم۔