سنن النسائي - حدیث 693

كِتَابُ الْمَسَاجِدِ الصَّلَاةُ فِي الْكَعْبَةِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ هُوَ وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ وَبِلَالٌ وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ فَأَغْلَقُوا عَلَيْهِمْ فَلَمَّا فَتَحَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنْتُ أَوَّلَ مَنْ وَلَجَ فَلَقِيتُ بِلَالًا فَسَأَلْتُهُ هَلْ صَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ صَلَّى بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ الْيَمَانِيَيْنِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 693

کتاب: مسجد سے متعلق احکام و مسائل کعبے کے اندر نماز پڑھنا؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن طلحہ  بیت اللہ میں داخل ہوئے اور انھوں نے دروازہ بند کر لیا (تاکہ لوگ رش نہ کریں)۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازہ کھولا تو میں سب سے پہلے داخل ہوا۔ میں بلال رضی اللہ عنہ سے ملا۔ میں نے ان سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے میں نماز پڑھی ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، آپ نے (اگلی صف کے بائیں طرف والے) دو یمنی ستونوں کے درمیان نماز پڑھی ہے۔
تشریح : (۱) کعبے میں آپ کا نماز پڑھنا صحیح ثابت ہے، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ اب کوئی کعبے کے اندر نماز پڑھ سکتا ہے؟ علامہ عراقی رحمہ اللہ کے بقول اگرچہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر صرف نفل نماز پڑھی ہے لیکن فرض نماز بھی اس کے تحت داخل ہے کیونکہ اصولی طور پر نفل اور فرض نمازیں ارکان و واجبات اور شرائط کے اعتبار سے جمیع احکام میں یکساں ہیں، سوائے ان امور کے جو کسی دلیل سے مستثنیٰ ہوں، لہٰذا کعبے کے اندرف رض نماز بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ علماء کے اس اختلاف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک نفل نماز پڑھنے میں تو کوئی حرج نہیں جبکہ فرض نماز کی ادائیگی مکروہ ہے اور بقول امام شافعی رحمہ اللہ نفل اور فرض دونوں قسم کی نمازیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ طہارت، وضو اور قبلے کے حکم میں (چند مخصوص احکام کے سوا) دونوں برابر ہیں۔ ملاحظہ کیجیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۴۹۹/۸) (۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کعبے کے چھ ستون تھے۔ تین اگلی صف میں، تین پچھلی صف میں۔ بائیں طرف کے ستونوں کو یمنی کہا جاتا تھا۔ (۱) کعبے میں آپ کا نماز پڑھنا صحیح ثابت ہے، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ اب کوئی کعبے کے اندر نماز پڑھ سکتا ہے؟ علامہ عراقی رحمہ اللہ کے بقول اگرچہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر صرف نفل نماز پڑھی ہے لیکن فرض نماز بھی اس کے تحت داخل ہے کیونکہ اصولی طور پر نفل اور فرض نمازیں ارکان و واجبات اور شرائط کے اعتبار سے جمیع احکام میں یکساں ہیں، سوائے ان امور کے جو کسی دلیل سے مستثنیٰ ہوں، لہٰذا کعبے کے اندرف رض نماز بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ علماء کے اس اختلاف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک نفل نماز پڑھنے میں تو کوئی حرج نہیں جبکہ فرض نماز کی ادائیگی مکروہ ہے اور بقول امام شافعی رحمہ اللہ نفل اور فرض دونوں قسم کی نمازیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ طہارت، وضو اور قبلے کے حکم میں (چند مخصوص احکام کے سوا) دونوں برابر ہیں۔ ملاحظہ کیجیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۴۹۹/۸) (۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کعبے کے چھ ستون تھے۔ تین اگلی صف میں، تین پچھلی صف میں۔ بائیں طرف کے ستونوں کو یمنی کہا جاتا تھا۔