سنن النسائي - حدیث 691

كِتَابُ الْمَسَاجِدِ ذِكْرُ أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ أَوَّلًا صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَى أَبِي الْقُرْآنَ فِي السِّكَّةِ فَإِذَا قَرَأْتُ السَّجْدَةَ سَجَدَ فَقُلْتُ يَا أَبَتِ أَتَسْجُدُ فِي الطَّرِيقِ فَقَالَ إِنِّي سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يَقُولُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ أَوَّلًا قَالَ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ قُلْتُ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى قُلْتُ وَكَمْ بَيْنَهُمَا قَالَ أَرْبَعُونَ عَامًا وَالْأَرْضُ لَكَ مَسْجِدٌ فَحَيْثُمَا أَدْرَكْتَ الصَّلَاةَ فَصَلِّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 691

کتاب: مسجد سے متعلق احکام و مسائل کون سی مسجد سب سے پہلے بنائی گئی؟ حضرت ابراہیم سے روایت ہے کہ میں گلی میں اپنے والد محترم پر قرآن مجید کی قراءت کر رہا تھا، جب میں نے سجدے کی آیت پڑھی تو آپ نے وہیں سجدہ کردیا۔ میں نے کہا: ابا جان! آپ راستے میں سجدہ کر رہے ہیں؟ فرمانے لگے: میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرماتے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سی مسجد سب سے پہلے بنائی گئی؟ آپ نے فرمایا: ’’مسجد حرام (بیت اللہ)۔‘‘ میں نے کہا: پھر کون سی؟ آپ نے فرمایا: ’’مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)۔‘‘ میں نے کہا: ان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’چالیس سال، ویسے ساری زمین تیرے لیے نماز کی جگہ ہے، جہاں بھی تیرے لیے نماز کا وقت ہو جائے، نماز پڑھ لے۔‘‘
تشریح : (۱) زمین پاک ہو تو کسی بھی جگہ سجدہ کیا جا سکتا ہے اور نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ گلی ہو یا بازار، گھر ہو یا مسجد۔ پلید جگہ پر نماز اور سجدہ جائز نہیں، چاہے وہ مسجد ہی میں کیوں نہ ہو۔ (۲) مشہور یہ ہے کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے بنایا اور بیت المقدس حضرت سلیمان علیہ السلام نے بنایا۔ ان دونوں انبیاء علیہم السلام کے درمیان ایک ہزار سال سے زائد فاصلہ ہے۔ اس حدیث کی رو سے چالیس سال کا فاصلہ ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ اس حدیث میں آدم علیہ السلام کی بنا کا ذکر ہے۔ انھوں نے پہلے بیت اللہ بنایا، پھر چالیس سا لبعد بیت المقدس بنایا۔ اور قرآن میں جو تعمیر کعبہ اور اس کی بنیادیں اٹھانے کی نسبت ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کی طرف ہے تو اس سے سابقہ منہدم عمارت کی بنیادیں ازسرنو اٹھانا اور اس کی تعمیر کرنا مراد ہے، البتہ اہل کتاب کے نزدیک بیت المقدس حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنایا۔ اگر یہ قول صحیح ہو تو پھر کوئی اشکال نہیں رہتا کیونکہ یعقوب علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں پیدا ہوچکے تھے۔ (۲) ’’ساری زمین مسجد ہے‘‘ احادیث میں کچھ مقامات مستثنیٰ ہیں، ان کے علاوہ باقی ہر پاک جگہ پر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ علامہ اقبال نے کیا عجیب نکتہ نکالا ہے کہ ساری زمین مسجد ہے اور مسجد پر کافروں کا قبضہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا ساری زمین آزاد کراؤ۔ (۱) زمین پاک ہو تو کسی بھی جگہ سجدہ کیا جا سکتا ہے اور نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ گلی ہو یا بازار، گھر ہو یا مسجد۔ پلید جگہ پر نماز اور سجدہ جائز نہیں، چاہے وہ مسجد ہی میں کیوں نہ ہو۔ (۲) مشہور یہ ہے کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے بنایا اور بیت المقدس حضرت سلیمان علیہ السلام نے بنایا۔ ان دونوں انبیاء علیہم السلام کے درمیان ایک ہزار سال سے زائد فاصلہ ہے۔ اس حدیث کی رو سے چالیس سال کا فاصلہ ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ اس حدیث میں آدم علیہ السلام کی بنا کا ذکر ہے۔ انھوں نے پہلے بیت اللہ بنایا، پھر چالیس سا لبعد بیت المقدس بنایا۔ اور قرآن میں جو تعمیر کعبہ اور اس کی بنیادیں اٹھانے کی نسبت ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کی طرف ہے تو اس سے سابقہ منہدم عمارت کی بنیادیں ازسرنو اٹھانا اور اس کی تعمیر کرنا مراد ہے، البتہ اہل کتاب کے نزدیک بیت المقدس حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنایا۔ اگر یہ قول صحیح ہو تو پھر کوئی اشکال نہیں رہتا کیونکہ یعقوب علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں پیدا ہوچکے تھے۔ (۲) ’’ساری زمین مسجد ہے‘‘ احادیث میں کچھ مقامات مستثنیٰ ہیں، ان کے علاوہ باقی ہر پاک جگہ پر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ علامہ اقبال نے کیا عجیب نکتہ نکالا ہے کہ ساری زمین مسجد ہے اور مسجد پر کافروں کا قبضہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا ساری زمین آزاد کراؤ۔