سنن النسائي - حدیث 686

كِتَابُ الْأَذَانِ إِيذَانُ الْمُؤَذِّنِينَ الْأَئِمَّةَ بِالصَّلَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ وَيُونُسُ وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُمْ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى الْفَجْرِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ وَيَسْجُدُ سَجْدَةً قَدْرَ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَتَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ بِالْإِقَامَةِ فَيَخْرُجُ مَعَهُ وَبَعْضُهُمْ يَزِيدُ عَلَى بَعْضٍ فِي الْحَدِيثِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 686

کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل مؤذن امام کو نماز کے وقت اطلاع کرے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فراغت کے بعد سے فجر طلوع ہونے تک گیارہ رکعت پڑھتے تھے۔ ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے اور آخر میں ایک رکعت الگ پڑھتے اور اتنا (لمبا) سجدہ کرتے کہ تم میں سے کویئ شخص پچاس آیات پڑھ سکتا تھا۔ پھر سر اٹھاتے۔ پھر جب مؤذن فجر کی اذان سے فارغ ہوتا اور آپ کو یجر نظر آنے لگتی تو آپ دو ہلکی رکعتیں (صبح کی سنتیں) پڑھتے۔ پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے حتیٰ کہ مؤذن آپ کو اقامت کی اطلاع دینے آتا۔ پھر پ اس کے ساتھ نکل جاتے۔ امام زہری کے شاگرد اس حدیث کے بیان میں لفظی طور پر ایک دوسرے سے کمی بیشی کرتے ہیں۔
تشریح : (۱) اس حدیث میں امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کے تین شاگرد ہیں: ابن ابی ذئب، یونس اور عمرو بن حارث۔ ظاہر ہے کہ جب تین شخص روایت بیان کریں تو ان میں کبھی کچھ نہ کچھ لفظی اختلاف ہو ہی سکتا ہے، چونکہ تینوں راوی ثقہ ہیں، لہٰذا متن پر کوئی منفی اثر مرتب نہ ہوگا۔ (۲) گیارہ رکعب تہجد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی معمول تھا۔ کبھی کبھار آپ تیرہ رکعب بھی پڑھ لیتے تھے۔ ان میں دو رکعتیں عشاء کے بعد کی سنتیں ہوتیں، یا آپ  افتتاحی طور پر دو رکعات آغاز میں پڑھ لیتے جیسا کہ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں یہی گیارہ رکعت قیام رمضان یا تراوی بن جاتی تھیں، البتہ آپ انھیں لمبا کر لیتے تھے۔ آپ سے تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنا ثابت نہیں۔ یہ ایک ہی نماز ہے۔ عام حالت میں تہجد یا وتر اور رمضان میں تراویح۔ (۳) سنت فجر کے بعد لیٹنا مسنون ہے، تہجد پڑھنے والوں سنتوں کے بعد فجر کی نماز تک لیٹ سکتا ہے، مگر وضو کا خیال رہے۔ (۴) ایک وتر باقی سے الگ پڑھنا جائز ہے۔ احناف تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کے قائل ہیں۔ اس روایت سے ان کے موقف کی تردید ہوتی ہے۔ (۱) اس حدیث میں امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کے تین شاگرد ہیں: ابن ابی ذئب، یونس اور عمرو بن حارث۔ ظاہر ہے کہ جب تین شخص روایت بیان کریں تو ان میں کبھی کچھ نہ کچھ لفظی اختلاف ہو ہی سکتا ہے، چونکہ تینوں راوی ثقہ ہیں، لہٰذا متن پر کوئی منفی اثر مرتب نہ ہوگا۔ (۲) گیارہ رکعب تہجد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی معمول تھا۔ کبھی کبھار آپ تیرہ رکعب بھی پڑھ لیتے تھے۔ ان میں دو رکعتیں عشاء کے بعد کی سنتیں ہوتیں، یا آپ  افتتاحی طور پر دو رکعات آغاز میں پڑھ لیتے جیسا کہ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں یہی گیارہ رکعت قیام رمضان یا تراوی بن جاتی تھیں، البتہ آپ انھیں لمبا کر لیتے تھے۔ آپ سے تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنا ثابت نہیں۔ یہ ایک ہی نماز ہے۔ عام حالت میں تہجد یا وتر اور رمضان میں تراویح۔ (۳) سنت فجر کے بعد لیٹنا مسنون ہے، تہجد پڑھنے والوں سنتوں کے بعد فجر کی نماز تک لیٹ سکتا ہے، مگر وضو کا خیال رہے۔ (۴) ایک وتر باقی سے الگ پڑھنا جائز ہے۔ احناف تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کے قائل ہیں۔ اس روایت سے ان کے موقف کی تردید ہوتی ہے۔