سنن النسائي - حدیث 683

كِتَابُ الْأَذَانِ الصَّلَاةُ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو عَامِرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ الْمُؤَذِّنُ إِذَا أَذَّنَ قَامَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ يُصَلُّونَ حَتَّى يَخْرُجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ كَذَلِكَ وَيُصَلُّونَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ شَيْءٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 683

کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل ہر اذان اور اقامت کے درمیان نفل نماز پڑھنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں) جب مؤذن (مغرب کی) اذان کہتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے احصاب اٹھتے اور نماز پڑھنے کے لیے جلدی جلدی ستونوں کا رخ کرتے حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تو وہ اس حال میں ہوتے تھے، یعنی مغرب سے پہلے کی سنتیں پڑھ رہے ہوتے تھے اور اذان و اقامت کے درمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہ ہوتا تھا۔
تشریح : (۱) ستونوں کارخ اس لیے کرتے تھے کہ انھیں سترہ بنا سکیں کیونکہ جب کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے سامنے سترے کا ہونا ضروری ہے۔ اگر جماعت ہو رہی ہو تو صرف امام کے سامنے سترہ کافی ہوتا ہے۔ (ہ) آپ تشریف لاتے تو وہ اسی حال میں ہوتے تھے، یعنی نوافل پڑھ رہے ہوتے تھے، مگر آپ انھیں منع نہ فرماتے تھے۔ اسے سنت تقریری کہتے ہیں، یعنی آپ نے اس کام پر انھیں برقرار رکھا، روکا نہیں۔ (۳) ’’زیادہ فاصلہ نہ ہوتا تھا۔‘‘ دو رکعت پڑھنے کے لیے زیادہ وقت کی ضرورت بھی نہ تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے تک وہ تقریباً تقریباً فارغ ہو جاتے تھے۔ (۱) ستونوں کارخ اس لیے کرتے تھے کہ انھیں سترہ بنا سکیں کیونکہ جب کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے سامنے سترے کا ہونا ضروری ہے۔ اگر جماعت ہو رہی ہو تو صرف امام کے سامنے سترہ کافی ہوتا ہے۔ (ہ) آپ تشریف لاتے تو وہ اسی حال میں ہوتے تھے، یعنی نوافل پڑھ رہے ہوتے تھے، مگر آپ انھیں منع نہ فرماتے تھے۔ اسے سنت تقریری کہتے ہیں، یعنی آپ نے اس کام پر انھیں برقرار رکھا، روکا نہیں۔ (۳) ’’زیادہ فاصلہ نہ ہوتا تھا۔‘‘ دو رکعت پڑھنے کے لیے زیادہ وقت کی ضرورت بھی نہ تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے تک وہ تقریباً تقریباً فارغ ہو جاتے تھے۔