سنن النسائي - حدیث 681

كِتَابُ الْأَذَانِ الدُّعَاءُ عِنْدَ الْأَذَانِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ النِّدَاءَ اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ الَّذِي وَعَدْتَهُ إِلَّا حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 681

کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل اذان کے بعد کی دعا حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اذان سننے کے بعد یہ کہے: [اللھم! رب ھذہ الدعوۃ……… وابعثہ مقاما محمودا الذی وعدتہ] ’’اے اللہ! اس مکمل دعوت اور قائم ہونے والی نماز کے رب! محمد () کو (جنت میں) مقام وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور آپ کو مقام محمود پر فائز فرما جس کا تو نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے۔‘‘ اس کے لیے قیامت کے دن میری شفاعت لازم ہوگئی۔‘‘
تشریح : (۱) مکمل دعوت سے مراد اذان ہے کیونکہ اس میں تمام اصول دین موجود ہیں جن کی طرف اسلام دعوت دیتا ہے۔ چونکہ اس اذان کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، اس لیے اسے اس مکمل دعوت کا رب کہا گیا۔ (۲) صلاۃ قائمہ سے مراد وہ نماز ہے جو ابھی باجماعت قائم ہوگی۔ (۳) الوسیلۃ کی تفسیر تو حدیث: ۶۷۹ میں گزر چکی ہے کہ وہ جنت میں ایک مقم ہے جو صرف ایک شخص کو ملے گا اور وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں گے۔ الفضیلۃ سے مراد بھی بعض لوگوں کے نزدیک ایک مقام ہے، مگر کسی حدیث سے اس کا مفہوم کی تائید نہیں ہوتی، لہٰذا اس سے مراد فضیلت ہوگی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب لوگوں، امتوں اور انبیاء علیہم السلام پر حاصل ہوگی، جنت سے باہر بھی اور جنت کے اندر بھی۔ اور مقام محمود حشر کے روز آپ کو نصیب ہوگا جب سب انبیاء کی امتیں آپ کے پاس چل کر آئیں گی اور آپ سے شفاعت کبریٰ کی درخواست کریں گی۔ آپ اپنےرب عزوجل کے انتہائی قریب پہنچ کر سجدے میں گر جائیں گے اور اپنے رب تعالیٰ کی بے مثال تعریفیں کریں گے، جب کہ تمام خلائق آپ کی تعریفیں کر رہی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو پیار محبت سے سجدے سے اٹھائے گا اور آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا۔ اسے مقام محمود کہنے کی وجہ یہی ہے کہ آپ یہ مقام، حمد سے حاصل کریں گے۔ آپ اپنے رب کی حمد کریں گے اور سب لوگ آپ کی حمد کر رہے ہوں گے۔ اس مقام کا وعدہ قرآن مجید میں ہے: (عسی ان ییعئک ربک مقاما محمودا) (بنی اسرائیل۷۹:۱۷) ’’امید ہے آپ کا رب آپ کو عنقریب مقام محمود پر سرفراز فرمائے گا۔‘‘ (۴) سنن بیہقی کی روایت میں اس دعا کے آخر میں [انک لا تخلف المیعاد] ’’یقیناً تو وعدے کے خلاف ورزی نہیں کرتا۔‘‘ کے الفاظ بھی ہیں لیکن یہ شاذ اور ناقابل حجت ہیں، مزید یہ کہ بعض لوگ [والدرجۃ الرفیعۃ] کا اضافہ بھی کرتے ہیں مگر وہ حدیث کی کتب میں نہیں بلکہ بے اصل الفاظ ہیں، اس لیے مسنون الفاظ ہی کافی وافی ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (ارواء الغلیل: ۲۶۱/۱، والقول المقبول في شرح و تعلیق صلاۃ الرسول، ص۳۰۲ اور اسی کتاب کا ابتدائیہ) (۱) مکمل دعوت سے مراد اذان ہے کیونکہ اس میں تمام اصول دین موجود ہیں جن کی طرف اسلام دعوت دیتا ہے۔ چونکہ اس اذان کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، اس لیے اسے اس مکمل دعوت کا رب کہا گیا۔ (۲) صلاۃ قائمہ سے مراد وہ نماز ہے جو ابھی باجماعت قائم ہوگی۔ (۳) الوسیلۃ کی تفسیر تو حدیث: ۶۷۹ میں گزر چکی ہے کہ وہ جنت میں ایک مقم ہے جو صرف ایک شخص کو ملے گا اور وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں گے۔ الفضیلۃ سے مراد بھی بعض لوگوں کے نزدیک ایک مقام ہے، مگر کسی حدیث سے اس کا مفہوم کی تائید نہیں ہوتی، لہٰذا اس سے مراد فضیلت ہوگی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب لوگوں، امتوں اور انبیاء علیہم السلام پر حاصل ہوگی، جنت سے باہر بھی اور جنت کے اندر بھی۔ اور مقام محمود حشر کے روز آپ کو نصیب ہوگا جب سب انبیاء کی امتیں آپ کے پاس چل کر آئیں گی اور آپ سے شفاعت کبریٰ کی درخواست کریں گی۔ آپ اپنےرب عزوجل کے انتہائی قریب پہنچ کر سجدے میں گر جائیں گے اور اپنے رب تعالیٰ کی بے مثال تعریفیں کریں گے، جب کہ تمام خلائق آپ کی تعریفیں کر رہی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو پیار محبت سے سجدے سے اٹھائے گا اور آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا۔ اسے مقام محمود کہنے کی وجہ یہی ہے کہ آپ یہ مقام، حمد سے حاصل کریں گے۔ آپ اپنے رب کی حمد کریں گے اور سب لوگ آپ کی حمد کر رہے ہوں گے۔ اس مقام کا وعدہ قرآن مجید میں ہے: (عسی ان ییعئک ربک مقاما محمودا) (بنی اسرائیل۷۹:۱۷) ’’امید ہے آپ کا رب آپ کو عنقریب مقام محمود پر سرفراز فرمائے گا۔‘‘ (۴) سنن بیہقی کی روایت میں اس دعا کے آخر میں [انک لا تخلف المیعاد] ’’یقیناً تو وعدے کے خلاف ورزی نہیں کرتا۔‘‘ کے الفاظ بھی ہیں لیکن یہ شاذ اور ناقابل حجت ہیں، مزید یہ کہ بعض لوگ [والدرجۃ الرفیعۃ] کا اضافہ بھی کرتے ہیں مگر وہ حدیث کی کتب میں نہیں بلکہ بے اصل الفاظ ہیں، اس لیے مسنون الفاظ ہی کافی وافی ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (ارواء الغلیل: ۲۶۱/۱، والقول المقبول في شرح و تعلیق صلاۃ الرسول، ص۳۰۲ اور اسی کتاب کا ابتدائیہ)