سنن النسائي - حدیث 674

كِتَابُ الْأَذَانِ الْقَوْلُ مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا سَمِعْتُمْ النِّدَاءَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 674

کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل مؤذن کی اذان سن کر جواب دینا حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم اذان سنو تو اسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے۔‘‘
تشریح : (۱) مؤذن کی اذان کا جواب دینا مستحب ہے یا واجب؟ جمہور استحباب کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل صحیح مسلم کی حدیث ہے جس میں ہے کہ جب مؤذن نے اللہ اکبر کہا، آپ نے فرمایا: ’’یہ فطرت پر ہے‘‘ اور جب شہادتین کہی تو آپ نے فرمایا: ’’تو آگ سے نکل گیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: ۳۸۲) ان کے بقول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں جواب کی بجائے یہ کلمات فرمائے ہیں، اگر جواب دیا ہوتا تو ضرور منقول ہوتا، لہٰذا یہ عدم وجوب کی دلیل ہے۔ جبکہ دیگر بعض علماء کی رائے وجوب کی ہے کیونکہ احادیث کا ظاہر یہی ہے، مزید یہ ہے کہ وجوب سے پھیرنے والا کوئی صریح قرینہ بھی موجود نہیں اور کسی چیز کا عدم ذکر اس کے عدم وجوب کا تقاضا نہیں کرتا۔ یہاں بھی ایسے ہی ہے، یعنی اس حدیث میں یہ تو نہیں کہ آپ نے جواب نہیں دیا، ممکن ہے جواب بھی دیا ہو اور یہ کلمات بھی کہے ہوں اور راوی نے بغرض اختصار حدیث میں مذکور مزید فائدے کا ذکر کر دیا اور جواب کو عام شہرت کی بنا پر ترک کر دیا ہو جیسا کہ بعض اوقات رواۃ ایسا تصرف کرتے ہیں۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (فتح الباری: ۱۱۰/۲) (۲) اذان کا جواب ساتھ ساتھ دینا بہتر اور افضل ہے، تاہم بامر مجبوری اذان کے آخر میں بھی دیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (۳) تمام کلمات کے جواب میں وہی کلمات کہے جائیں گے مگر [حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح] کے جواب میں [لا حول و لا قوۃ الا باللہ] ’’گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔‘‘ کہا جائے گا۔ احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ بعض روایات میں [الصلاۃ خیر من النوم] کے جواب میں [قدقت و بررت] کے الفاظ آئے ہیں مگر یہ ثابت نہیں، لہٰذا اصل کلمات ہی کہے جائیں۔ تفصیل کے لیے کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔ (۱) مؤذن کی اذان کا جواب دینا مستحب ہے یا واجب؟ جمہور استحباب کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل صحیح مسلم کی حدیث ہے جس میں ہے کہ جب مؤذن نے اللہ اکبر کہا، آپ نے فرمایا: ’’یہ فطرت پر ہے‘‘ اور جب شہادتین کہی تو آپ نے فرمایا: ’’تو آگ سے نکل گیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: ۳۸۲) ان کے بقول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں جواب کی بجائے یہ کلمات فرمائے ہیں، اگر جواب دیا ہوتا تو ضرور منقول ہوتا، لہٰذا یہ عدم وجوب کی دلیل ہے۔ جبکہ دیگر بعض علماء کی رائے وجوب کی ہے کیونکہ احادیث کا ظاہر یہی ہے، مزید یہ ہے کہ وجوب سے پھیرنے والا کوئی صریح قرینہ بھی موجود نہیں اور کسی چیز کا عدم ذکر اس کے عدم وجوب کا تقاضا نہیں کرتا۔ یہاں بھی ایسے ہی ہے، یعنی اس حدیث میں یہ تو نہیں کہ آپ نے جواب نہیں دیا، ممکن ہے جواب بھی دیا ہو اور یہ کلمات بھی کہے ہوں اور راوی نے بغرض اختصار حدیث میں مذکور مزید فائدے کا ذکر کر دیا اور جواب کو عام شہرت کی بنا پر ترک کر دیا ہو جیسا کہ بعض اوقات رواۃ ایسا تصرف کرتے ہیں۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (فتح الباری: ۱۱۰/۲) (۲) اذان کا جواب ساتھ ساتھ دینا بہتر اور افضل ہے، تاہم بامر مجبوری اذان کے آخر میں بھی دیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (۳) تمام کلمات کے جواب میں وہی کلمات کہے جائیں گے مگر [حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح] کے جواب میں [لا حول و لا قوۃ الا باللہ] ’’گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔‘‘ کہا جائے گا۔ احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ بعض روایات میں [الصلاۃ خیر من النوم] کے جواب میں [قدقت و بررت] کے الفاظ آئے ہیں مگر یہ ثابت نہیں، لہٰذا اصل کلمات ہی کہے جائیں۔ تفصیل کے لیے کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔