سنن النسائي - حدیث 667

كِتَابُ الْأَذَانِ الْأَذَانُ لِمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ أَبَا عُشَّانَةَ الْمَعَافِرِيَّ حَدَّثَهُ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَعْجَبُ رَبُّكَ مِنْ رَاعِي غَنَمٍ فِي رَأْسِ شَظِيَّةِ الْجَبَلِ يُؤَذِّنُ بِالصَّلَاةِ وَيُصَلِّي فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي هَذَا يُؤَذِّنُ وَيُقِيمُ الصَّلَاةَ يَخَافُ مِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي وَأَدْخَلْتُهُ الْجَنَّةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 667

کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل اکیلے نماز پڑھنے والے کی اذان حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’اللہ تعالیٰ بکریوں کے اس چرواہے سے تعجب کرتا ہے جو کسی پہاڑ کی چوٹی پر رہتا ہے اور اذان کہہ کر نماز پڑھتا ہے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ’’میرے اس بندے کو دیکھو۔ اذان کہتا ہے اور نماز قائم کرتا ہے۔ مجھ سے ڈرتا ہے۔ میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا اور اسے جنت میں داخل کر دیا۔‘‘
تشریح : (۱) یعنی فیصلہ کر دیا کہ یہ جنت میں جائے گا میں اسے جنت میں داخل کروں گا۔ بات قطعی ہونے کی وجہ سے ماضی کے الفاظ میں اس کا ذکر ہے۔ (ہ) ’’تعجب کرتا ہے۔‘‘ خوشی، ناراضی، تعجب اور رحمت وغیرہ اللہ تعالیٰ کے اوصاف ہیں، جیسے بھی اس کی ذات کے لائق ہیں، ان کی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید اور حدیث شریف میں ان کا ذکر عام ہے۔ اگر یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لیے مناسب نہ ہوتے تو یوں ذکر نہ ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بارے میں سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ (۱) یعنی فیصلہ کر دیا کہ یہ جنت میں جائے گا میں اسے جنت میں داخل کروں گا۔ بات قطعی ہونے کی وجہ سے ماضی کے الفاظ میں اس کا ذکر ہے۔ (ہ) ’’تعجب کرتا ہے۔‘‘ خوشی، ناراضی، تعجب اور رحمت وغیرہ اللہ تعالیٰ کے اوصاف ہیں، جیسے بھی اس کی ذات کے لائق ہیں، ان کی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید اور حدیث شریف میں ان کا ذکر عام ہے۔ اگر یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لیے مناسب نہ ہوتے تو یوں ذکر نہ ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بارے میں سب سے زیادہ جانتے ہیں۔