سنن النسائي - حدیث 665

كِتَابُ الْأَذَانِ الْإِقَامَةُ لِمَنْ نَسِيَ رَكْعَةً مِنْ صَلَاةٍ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ أَنَّ سُوَيْدَ بْنَ قَيْسٍ حَدَّثَهُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حُدَيْجٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى يَوْمًا فَسَلَّمَ وَقَدْ بَقِيَتْ مِنْ الصَّلَاةِ رَكْعَةٌ فَأَدْرَكَهُ رَجُلٌ فَقَالَ نَسِيتَ مِنْ الصَّلَاةِ رَكْعَةً فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ وَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الصَّلَاةَ فَصَلَّى لِلنَّاسِ رَكْعَةً فَأَخْبَرْتُ بِذَلِكَ النَّاسَ فَقَالُوا لِي أَتَعْرِفُ الرَّجُلَ قُلْتُ لَا إِلَّا أَنْ أَرَاهُ فَمَرَّ بِي فَقُلْتُ هَذَا هُوَ قَالُوا هَذَا طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 665

کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل جو شخص (امام ) ایک رکعت بھول گیا (اور سلام پھیر کر چل دیا) پھر اس ایک رکعت کو ادا کرے تو اقامت بھی کہے حضرت معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھی اور سلام پھیر دیا (اور مسجد سے باہر چلے گئے) حالانکہ ایک رکعت باقی تھی۔ ایک آدمی پیچھے سے جاکر آپ کو ملا اور بتلایا کہ آپ ایک رکعت بھول گئے ہیں۔ آپ دوبارہ مسجد میں داخل ہوئے اور بلال کو حکم دیا۔ انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے لوگوں کو فوت شدہ رکعت پڑھائی۔ میں نے یہ بات جاکر دوسرے لوگوں کو بتلائی تو انھوں نے مجھ سے کہا: کیا تم اس آدمی کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا نہیں مگر یہ کہ میں انھیں دوبارہ دیکھوں۔ اتفاقاً وہ میرے پاس سے گزرے تو میں نے کہا: یہ ہیں وہ۔ لوگوں نے کہا: یہ طلحہ بن عبید اللہ ہیں۔
تشریح : (۱) صورت واقعہ یوں معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیر کر مسجد سے نکل گئے۔ حضرت طلحہ نے جاکر آپ کو خبر دی۔ چونکہ فاصلہ ہوچکا تھا، لہٰذا آپ نے نئی اقامت کہلوائی تاکہ نمازی جمع ہوجائیں، اگرچہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ مسجد سے باہر نہ گئے تھے، اس صورت میں مسجد میں داخل ہونے سے مراد نماز کی جگہ پر واپس آنا ہے۔ لغوی طور پر اسے مسجد کہا جا سکتا ہے۔ لیکن پہلی بات زیادہ مناسب ہے اور حدیث کے ظاہر سے قریب تر بھی۔ (۲) احناف اس صورت میں نماز باطل ہونے اور نئے سرے سے ساری نماز پڑھنے کے قائل ہیں اور اس حدیث کو ابتدائی دور پر محمول کرتے ہیں مگر یہ بات بلادلیل ہے۔ واللہ أعلم۔ (۱) صورت واقعہ یوں معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیر کر مسجد سے نکل گئے۔ حضرت طلحہ نے جاکر آپ کو خبر دی۔ چونکہ فاصلہ ہوچکا تھا، لہٰذا آپ نے نئی اقامت کہلوائی تاکہ نمازی جمع ہوجائیں، اگرچہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ مسجد سے باہر نہ گئے تھے، اس صورت میں مسجد میں داخل ہونے سے مراد نماز کی جگہ پر واپس آنا ہے۔ لغوی طور پر اسے مسجد کہا جا سکتا ہے۔ لیکن پہلی بات زیادہ مناسب ہے اور حدیث کے ظاہر سے قریب تر بھی۔ (۲) احناف اس صورت میں نماز باطل ہونے اور نئے سرے سے ساری نماز پڑھنے کے قائل ہیں اور اس حدیث کو ابتدائی دور پر محمول کرتے ہیں مگر یہ بات بلادلیل ہے۔ واللہ أعلم۔