سنن النسائي - حدیث 664

كِتَابُ الْأَذَانِ الِاكْتِفَاءُ بِالْإِقَامَةِ لِكُلِّ صَلَاةٍ ضعيف أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ قَالَ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ زَائِدَةَ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَنَّ أَبَا الزُّبَيْرِ الْمَكِّيَّ حَدَّثَهُمْ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ حَدَّثَهُمْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ قَالَ كُنَّا فِي غَزْوَةٍ فَحَبَسَنَا الْمُشْرِكُونَ عَنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ فَلَمَّا انْصَرَفَ الْمُشْرِكُونَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا فَأَقَامَ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ فَصَلَّيْنَا وَأَقَامَ لِصَلَاةِ الْعَصْرِ فَصَلَّيْنَا وَأَقَامَ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ فَصَلَّيْنَا وَأَقَامَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ فَصَلَّيْنَا ثُمَّ طَافَ عَلَيْنَا فَقَالَ مَا عَلَى الْأَرْضِ عِصَابَةٌ يَذْكُرُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ غَيْرُكُمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 664

کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل (فوت شدہ نمازوں میں سے )ہر نماز کے لیے اقامت ہی کافی ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک جنگ میں تھے تو مشرکوں نے ہمیں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں سے روکے رکھا۔ جب مشرکین پیچھے ہٹ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا۔ اس نے ظہر کی نماز کے لیے اقامت کہی تو ہم نے نماز پڑھی، پھر اس نے عصر کی نماز کے لیے اقامت کہی تو ہم نے عصر پڑھی، پھر اس نے مغرب کی نماز کے لیے اقامت کہی تو ہم نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر اس نے عشاء کی نماز کے لیے اقامت کہی تو ہم نے عشاء کی نماز پڑھی، پھر آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’روئے زمین پر تمھارے علاوہ کوئی جماعت (اس وقت) اللہ عزوجل کا ذکر نہیں کر رہی۔‘‘
تشریح : (۱) پیچھے گزر چکا ہے کہ بے وقت اذان سے چونکہ دوسرے لوگوں کو اشتباہ کا خطرہ ہوسکتا ہے، لہٰذا موقع محل کا لحاظ رکھا جائے، مثلاً: اگر کسی نماز کا وقت شروع ہوا ہے تو اذان کہہ کر فوت شدہ نمازیں اور وقتی نماز پڑھ لی جائے جیسا کہ حدیث: ۶۶۳ میں ہے اور اگر کسی نماز کا وقت نہیں رہا، وقت قریب الاختتام ہے تو فوت شدہ نمازیں پہلے پڑھ لی جائیں، پھر وقتی نماز کے لیے اذان کہہ لی جائے جیسا کہ حدیث: ۶۶۲ میں ہے اور اگر سب ہی قضا ہیں اور کسی نماز کا وقت نہیں تو پھر سب کے لیے صرف اقامت ہی کہہ لی جائے، جیسے حدیث: ۶۶۴ میں ہے اور اگر صحرا ہے، کسی کے لیے اشتباہ کا خطرہ ممکن نہیں تو کوئی بھی وقت ہو، اذان کہہ کر فوت شدہ نماز پڑھ لی جائے جیسا کہ حدیث: ۶۲۲ وغیرہ میں ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲) صحیح بخاری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سےصرف عصر کی نماز فوت ہونے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: ۴۱۱۱) وہ الگ واقعہ ہوگا کیونکہ جنگ خندق کئی دن ہوتی رہی۔ واللہ أعلم۔ (۱) پیچھے گزر چکا ہے کہ بے وقت اذان سے چونکہ دوسرے لوگوں کو اشتباہ کا خطرہ ہوسکتا ہے، لہٰذا موقع محل کا لحاظ رکھا جائے، مثلاً: اگر کسی نماز کا وقت شروع ہوا ہے تو اذان کہہ کر فوت شدہ نمازیں اور وقتی نماز پڑھ لی جائے جیسا کہ حدیث: ۶۶۳ میں ہے اور اگر کسی نماز کا وقت نہیں رہا، وقت قریب الاختتام ہے تو فوت شدہ نمازیں پہلے پڑھ لی جائیں، پھر وقتی نماز کے لیے اذان کہہ لی جائے جیسا کہ حدیث: ۶۶۲ میں ہے اور اگر سب ہی قضا ہیں اور کسی نماز کا وقت نہیں تو پھر سب کے لیے صرف اقامت ہی کہہ لی جائے، جیسے حدیث: ۶۶۴ میں ہے اور اگر صحرا ہے، کسی کے لیے اشتباہ کا خطرہ ممکن نہیں تو کوئی بھی وقت ہو، اذان کہہ کر فوت شدہ نماز پڑھ لی جائے جیسا کہ حدیث: ۶۲۲ وغیرہ میں ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲) صحیح بخاری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سےصرف عصر کی نماز فوت ہونے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: ۴۱۱۱) وہ الگ واقعہ ہوگا کیونکہ جنگ خندق کئی دن ہوتی رہی۔ واللہ أعلم۔